Inquilab Logo Happiest Places to Work

شام کی جیلوں سے ہزاروں خواتین اور سیاسی قیدی رہا، قیدیوں نے مظالم کی بھیانک یادیں بیان کیں

Updated: December 10, 2024, 1:59 PM IST | Agency | Damascus

شام کی جیلوں سے ہزاروں خواتین اور سیاسی قیدی رہا، قیدیوں نے مظالم کی بھیانک یادیں بیان کیں اور کہا کہ’’رہاہوکر لگ رہا ہے کہ جیسے آج ہی پیدا ہوئے ہیں۔‘‘

Outside the Sednaya Prison, people came in large numbers to free the people locked in the basements. Photo: INN
صیدیانا جیل کے باہر لوگ تہہ خانوں میں بند افراد کو آزاد کرانے کیلئے بڑی تعداد میں پہنچے۔ تصویر: آئی این این

شام میں اسد حکومت کے تختہ پلٹ کے نتیجے میں رہا ہونیوالے قیدیوں نے ہولناک انکشافات کئے ہیں۔ ان قیدیوں کا کہنا ہے کہ ’’بشار حکومت کی جیلوں میں قیدیوں کو نام کے بجائے نمبر سے پکارا جاتا تھا، غیر انسانی تشدد کیا جانا معمول تھا، رہائی کے بعد ایسا لگا جیسے ہم آج ہی پیدا ہوئے ہوں۔‘‘  ہالا نامی خاتون قیدی کہتی ہیں کہ جیل میں میرا نام ’نمبر ۱۱۰۰‘ تھا، یہی میرا نام بھی تھا۔ ’الجزیرہ‘ کی رپورٹ کے مطابق ہالا نے بتایا کہ’’مجھے۲۰۱۹ء میں حما میںگرفتار کیا گیا اور مجھ پر ’دہشت گردی‘ کا الزام لگایا گیا تھا، مجھے حلب لے جایا گیا جہاں میںنے مختلف جیلوں میں وقت گزارا ہے۔‘‘ ہالا نے ۲۹؍ نومبر کو حیات طاہر الشام کی قیادت میں باغی فورسز کی طرف سے جیل سے قیدیوں کی رہائی کے بارے میں کہا کہ ’’ہمیں یقین نہیں آرہا تھا کہ ایسا سچ مچ ہورہا ہے اور ہم روشنی دیکھیں گے۔ یہ خوشی اس وقت اور بھی زیادہ بڑھ گئی جب میں اپنے گھر والوں کے پاس پہنچی، ایسا لگتا تھا جیسے میں دوبارہ پیدا ہوئی ہوں۔‘‘ ہالا رہائی پانے والے ایک لاکھ۳۶؍ ہزار۶۱۴؍ قیدیوں میں سے ایک ہیں، شامی انسانی حقوق گروپ کے مطابق ان قیدیوں کو ’قصاب جیلوں‘ کے نیٹ ورک میں رکھا گیا تھا۔ انسانی حقوق کی تنظیم کا کہنا ہے کہ’ ’شامی حکومت کے حراستی مراکز میں بڑے پیمانے پر تشدد، بھوک، مار پیٹ اور بیماریوں کے ناقابل تردید ثبوت ہیں، جو انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔‘‘ ہالا نے جیل میں قید ایک۱۶؍ سالہ لڑکی کی گرفتاری اور اس پر خوفناک تشدد کو یاد کرتے ہوئے بتایا کہ بعد میں اس لڑکی کی موت ہو گئی تھی، لڑکی کی گرفتاری اس کی شادی کے صرف۲؍ ماہ بعد ہوئی تھی، جب پولیس نے اسے یونیورسٹی کی ایک طالبہ، ایک معمر خاتون اور دو ڈاکٹروں کیساتھ حراست میں لیا، جن پر پولیس نے ’انقلابیوں‘ کا علاج کرنے کا الزام لگایا تھا۔
 حلب کی جیل سے رہائی کے بارے میں ۴۹؍ سالہ صفی الیاسین نے کہا کہ تقریباً ۵؍ہزار قیدی تھے،ہم نے باہر نکلنے کیلئے کھڑکیاں اور دروازے توڑنا شروع کر دیے، یہاں تک کہ جیل کے افسران اور محافظ بھی عام شہریوں جیسے کپڑے پہن کر ہمارے ساتھ باہر نکلے، تاکہ باغیوں کے ہاتھوں انہیں پکڑا نہ جاسکے۔‘‘ صفی کو  ۲۰۱۱ء میں  ملک بھر میں ہونے والے مظاہروں میں سے ایک میں حصہ لینے کے جرم میں انہیں۳۱؍ سال قید کی سزا سنائی گئی تھی، اگلے ۱۴؍ سال کے دوران، انہیں شام کے وسیع جیل نظام کے اندر مختلف مقامات پر شدید جسمانی اور کئی سال طویل نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ صفی الیاسین نے ایک سال صیدنایا کی بدنام زمانہ جیل میں گزارا، جسے۲۰۱۷ء میں ایمنسٹی انٹرنیشنل نے ’انسانی مذبح ‘ قرار دیا تھا، جس کے بعد انہیں سویدہ اور بالآخر حلب منتقل کر دیا گیا، انہوں نے کہا کہ صیدنایا میں میرے ساتھ کیا گیا سلوک ناقابل بیان اور ناقابل تحریر ہے، جو مناظر میں نے دیکھے وہ انمٹ ہیں، میری موت تک یہ سب کچھ بھولنا ممکن نہیں۔‘‘
 ایک اور قیدی ماہرنے کہا کہ  ۲۰۱۷ء میں مجھے  ’دہشت گردی کی مالی معاونت‘ کے الزام میں گرفتار کیا گیا، اس نے۷؍ سال شام کی جیل میں بغیر کسی مقدمے کے گزارے، ماہر کا خیال تھا کہ حکام اسے ’بھول‘ گئے ہیں، جیسے میں انسان نہیں ہوں کیوں کہ میں صرف ایک نمبر تھا۔ انہوں نے جیل میں جو کچھ تجربہ کیا اور دیکھا اس کی ہولناکی بیان کرتے ہوئے کہا کہ تشدد کی شدت اور سفاکانہ طریقوں کی وجہ سے ہر منٹ موت کے قریب محسوس ہوتا تھا ۔ماہر کہتے ہیں کہ کئی سال کے انسانیت سوز تشدد کے بعد، حلب جیل چھوڑنے کی توقع ختم ہوچکی تھی، لیکن پھر یہ غیر متوقع واقعہ پیش آیا۔ ہمارے لئے یقین کرنا مشکل تھا کہ یہ خواب حقیقت بن گیا ہے، ہم دروازے توڑ کر جیل سے باہر نکلے، انقلابیوں کو گلے لگایا، خدا کا شکر ادا کیا۔

اس دن آزاد نہ ہوتے توپھانسی ہوجاتی...
رپورٹ کے مطابق جیل سے آزاد ہونے  والے کچھ اور افراد نے بتایا کہ انہیں آج کے دن کچھ دیر قبل  ہی پھانسی دی  جانی تھی مگر اب وہ آزاد ہیں۔ ایک شخص نے بتایا ` مجھ سمیت۵۴؍افراد کو آج کے دن۳۰؍ منٹ پہلے پھانسی دی جانی تھی مگر اب ہم آزاد ہیں، اب ہم  دمشق کے دل میں کھڑے ہیں۔ علی حسن کو۳۹؍ سال بعد جیل سے آزادی ملی، علی حسن کو۱۹۸۶ء میں شامی فوجیوں نے شمالی  لبنان میں ایک چیک پوسٹ سے گرفتار کیا تھا، ان کی عمر اس وقت۱۸؍سال تھی  اور وہ یونیورسٹی کے طالب علم تھے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK