Inquilab Logo

شام: شمال مشرقی حصے میں ترکی کے ڈرون حملے، ۳؍ ہلاک

Updated: February 28, 2024, 10:46 PM IST | Beirut

شام میں ترکی نے باغی گروہوں کو نشانہ بنا کر ڈرون حملہ کیا۔ ترکی برسوں سے شام میں کرد جنگجوؤں پر حملے کر رہا ہے لیکن ملک کی عیسائی اقلیت کے جنگجوؤں پر حملے شاذ و نادر ہی ہوئے ہیں۔ دریں اثناء، شام میں حکومت مخالف مظاہروں پر سیکوریٹی فورس کی فائرنگ میں بھی ایک شخص جاں بحق۔ میڈیا نے بتا یا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ہونے والے یہ مظاہرے جلد ہی اسد کی حکومت کے خاتمے کے مطالبات میں تبدیل ہو گئے اور ۲۰۱۱ء کی بغاوت کے دوران پہلی ریلی کا انعقاد ہوا جوآگے چل کر شام کی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

بدھ کوشمال مشرقی شام میں ترک ڈرون حملوں میں ایک مقامی کرسچن فورس کے کم از کم تین ارکان ہلاک اور عام شہریوں سمیت دیگر زخمی ہو گئے۔ یہ بات کرد اور شامی اپوزیشن کے جنگی نگرانی کے ایک اہلکار نے بتائی۔ 
اسی دن جنوبی شام کے شہر سویدا میں سیکوریٹی فورسیز نے ملک کی بگڑتی معیشت پر مشتعل مظاہرین پر اس وقت گولی چلا دی جب انہوں نے صدر بشار الاسد کی حکمران بعث پارٹی کے دفاتر میں گھسنے کی کوشش کی۔ ایک ۵۲؍ سالہ شخص کو سینے میں گولی لگی اور بعد میں وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے دم توڑ گیا۔ 
بدھ کے فضائی حملوں پر انقرہ کی جانب سے فوری طور پر کوئی تبصرہ نہیں کیا گیا۔ ترکی برسوں سے شام میں کرد جنگجوؤں پر حملے کر رہا ہے لیکن ملک کی عیسائی اقلیت کے جنگجوؤں پر حملے شاذ و نادر ہی ہوئے ہیں۔ جس فورس کو نشانہ بنایا گیاوہ مقامی کرسچن سیریک پولیس جسے سوتورو کے نام سے جانا جاتا ہے، شمالی اور مشرقی شام کی امریکی حمایت یافتہ اور کرد قیادت والی خود مختار انتظامیہ کے تحت کام کرتی ہے۔ 
امریکی حمایت یافتہ سیریئن ڈیموکریٹک فورسیز کے سیامند علی نے اسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ ترک ڈرون نے ابتدائی طور پر شمال مشرقی قصبہ مالکیہ کے قریب تین سوتورو گاڑیوں کو نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ جب ایک چوتھی گاڑی جو ایک پک اپ ٹرک تھی حملے میں ہونے والی ہلاک ہونے والوں کو نکالنے کیلئےجائے وقوعہ پر پہنچی تو وہ بھی حملے کی زد میں آ گئی۔ 
برطانیہ میں قائم سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس جو حزب اختلاف کی جنگ پر نظر رکھنے والی ایک تنظیم ہے نے کہا کہ سوتورو پولیس کے تین ارکان کے ساتھ ساتھ ایک شہری بھی مارا گیا۔ آبزرویٹری نے کہا کہ یہ حملہ شمال مشرقی شام میں اس سال اب تک ایسے ۶۵؍حملوں میں تازہ ترین ہے جس میں ۱۸؍افراد ہلاک ہو چکے ہیں، ان میں زیادہ تر کرد جنگجو تھے۔ 
واضح رہے کہ ترکی اکثر شام اور عراق میں ان اہداف کے خلاف حملے کرتا ہے جو ترکی کے خیال میںکردستان ورکرز پارٹی یا پی کے کےسے وابستہ ہے۔یہ ایک کالعدم کرد علاحدگی پسند گروپ ہے جس نے ۱۹۸۰ء کی دہائی سے ترکی کے خلاف بغاوت کر رکھی ہے۔ ترکی کا کہنا ہے کہ شام میں مرکزی کرد ملیشیا، جسے پیپلز ڈیفنس یونٹس یا وائے پی جی کہا جاتا ہے، پی کے کےسے الحاق شدہ ہے۔ 
ترکی کی سرکاری انادولو ایجنسی نے منگل کو اطلاع دی ہے کہ ترک انٹیلی جنس ایجنسی ایم آئی ٹی نے شمالی شام کے قصبے کمیشلی میں ایک کارروائی میں کرد جنگجو کے ایک سینئر رکن کو ہلاک کر دیا ہے۔رپورٹ میں خاتون آپریٹو کی شناخت ایمن سید احمد کے نام سے ہوئی، جو شامی شہری ہے اور مبینہ طور پر ’’آزادی ڈیرک‘‘ کے کوڈ نام سے جانی جاتی تھی۔ اس نے مبینہ طور پر ۲۰۱۱ءمیں کردش وومن پروٹیکشن یونٹس، یا وائی پی جے میں شمولیت اختیار کی اور مبینہ طور پر ترک سیکوریٹی فورسیز کے خلاف متعدد حملوں کے ساتھ ترکی میں شہریوں کو نشانہ بنانے والے سرحد پار سے میزائل حملوں کی منصوبہ بندی کی۔ 
سویدہ میں، مقامی کارکن میڈیا جماعت سویدہ ۲۴؍ نے بدھ کو حکومت مخالف ریلی کے دوران ہلاک ہونے والے مظاہرین کی شناخت جواد البروقی کے طور پر کی۔ ‏ سویدہ ۲۴؍ کے چیف ایڈیٹر ریان معروف نے اسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس شخص کو سویدہ نیشنل اسپتال لے جایا گیا لیکن آئی سی یو میں پھیپھڑوں کا ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی نگہداشت کے یونٹ میں اس کی موت ہو گئی۔یہ موت سویدہ میں حکومت مخالف مظاہروں میں پہلی ہلاکت ہے، جو گزشتہ اگست میں شروع ہوئے۔ مظاہرین کا تعلق بنیادی طور پر ملک کی نسلی ڈروز اقلیت سے تھا۔ بدھ کو ہونے والی فائرنگ میں ایک اور مظاہرین زخمی ہوا۔
 میڈیا نے مجموعی طور پر یہ بتا یا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کے خلاف ہونے والے یہ مظاہرے جلد ہی اسد کی حکومت کے خاتمے کے مطالبات میں تبدیل ہو گئے اور۲۰۱۱ء کی بغاوت کے دوران پہلی ریلی کا انعقاد ہوا جوآگے چل کر شام کی خانہ جنگی میں تبدیل ہو گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK