تلنگانہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ مسلم خواتین کو خاوند کی رضامندی کے بغیر خلع (طلاقِ زوجہ) کے ذریعے شادی ختم کرنے کا مطلق اور بلا شرط حق حاصل ہے۔
EPAPER
Updated: June 26, 2025, 4:11 PM IST | Hyderabad
تلنگانہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ مسلم خواتین کو خاوند کی رضامندی کے بغیر خلع (طلاقِ زوجہ) کے ذریعے شادی ختم کرنے کا مطلق اور بلا شرط حق حاصل ہے۔
تلنگانہ ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا ہے کہ مسلم خواتین کو خاوند کی رضامندی کے بغیر خلع (طلاقِ زوجہ) کے ذریعے شادی ختم کرنے کا مطلق اور بلا شرط حق حاصل ہے۔ واضح رہے کہ خلع اسلامی قانون کے تحت ایک ایسا طریقہ ہے جہاں بیوی طلاق کا مطالبہ کر سکتی ہے، عام طور پر اپنے مہر کے حق سے دستبردار ہو کر۔ عدالت نے زور دے کر کہا کہ یہ حق بلا شرط ہے اور خاوند کی رضامدی کا محتاج نہیں۔ جسٹس ماؤشومی بھٹاچاریہ اور جسٹس بی آر مدھوسودن راؤ پر مشتمل بنچ نے واضح کیا کہ ’’ > بیوی کا خلع کا مطالبہ کرنا ایک مطلق حق ہے جو کسی وجہ یا خاوند کی قبولیت پر منحصر نہیں۔ عدالت کا کردار صرف نکاح کے خاتمے کو رسمی طور پر تسلیم کرنا ہے۔‘‘
تلنگانہ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ ایک مسلم مرد کی جانب سے کئے چیلنج پر آیا، جس نے خانگی عدالت کے ایک خلع کے فیصلے کو برقرار رکھنے کے خلاف عدالت سے رجوع کیا تھا، اس خلع کی سند صدائے حق شریعہ کونسل جو علماؤں کی ایک جماعت ہے نے جاری کیا تھا۔ خاوند چونکہ اس سے متفق نہیں تھا، لہٰذا اس نے اس خلع کی مخالفت کی۔اس بابت عدالت نے یہ بھی وضاحت کی کہ خلع کے قائم ہونے میں کسی مفتی یا شرعی عدالت کی سند لازمی نہیں۔مفتی کی رائے ایک مشورہ کی حیثیت رکھتا ہے۔مفتی سے فتویٰ حاصل کرنالازمی نہیں، اور نہ ہی یہ فتویٰ قانوناً نافذالعمل ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اترپردیش حکومت پر۵؍ لاکھ روپے جرمانہ
فیصلے کے مطابق، خلع اُس لمحے مؤثر ہو جاتی ہے جب بیوی نکاح منسوخ کرنے کا ارادہ ظاہر کرے —بشرطیکہ معاملہ عدالت تک نہ پہنچے۔ اگر معاملہ عدالت پہنچے تو خاندانی عدالت صرف یہ تصدیق کرتی ہے کہ مطالبہ حقیقی ہے اور مختصر وقتکیلئے رجوع کا موقع دیتی ہے۔ ساتھ ہی خاندانی عدالت کی کارروائی فوری اور سادہ ہونی چاہئے۔ عدالت نے بیوی کے خلع کے حق کو خاوند کے طلاق (یکطرفہ حق) کے برابر قرار دیا، واضح کیا کہ دونوں اسلامی قانون کے تحت مطلق حقوق ہیں۔ خاوند مہر کی واپسی پر بات چیت کر سکتا ہے، لیکن بیوی کو شادی جاری رکھنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔
عدالت نے قرآن اور سپریم کورٹ کے سابقہ فیصلوں کا حوالہ دیتے ہوئے اس خیال کو مسترد کر دیا کہ خلع کے لیے خاوند کی رضامندی درکار ہے، کیونکہ نہ قرآن اور نہ حدیث اس کا تقاضا کرتے ہیں۔ ججوں نے خاتون وکیل کی جانب سے خلع کےبعد مسلم خواتین کی غیر یقینی صورتحال کےبارے میں اٹھائے گئے خدشات کو بھی تسلیم کیا، اور امید ظاہر کی کہ عدالتوں کے فیصلے وضاحت اور انصاف لانے میں مدد کریں گے۔ساتھ ہی کہا کہ ’’ ہمیں یقین ہے کہ یہ قانون مسلم خواتین کی مشکلات کو کم کرے گا۔‘‘