Updated: May 01, 2025, 7:08 PM IST
| Washington
ٹیکساس یونیورسٹی اور گورنر کے خلاف غزہ احتجاجی گرفتاریوں پر طلبہ نے مقدمہ دائر کر دیا، مقدمے میں یونیورسٹی آف ٹیکساس کے صدر جے ہارٹزل، گورنر گریگ ایبٹ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف کیمپس احتجاج کے دوران فلسطین کی حمایت میں تقریر کو جان بوجھ کر دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔
امریکی یونیورسٹی میں فلسطین حامی مظاہرے کا ایک منظر۔ تصویر: ایکس
ٹیکساس یونیورسٹی آسٹن کے چار موجودہ اور سابق طلباء نے یونیورسٹی اور گورنر گریگ ایبٹ کے خلاف مقدمہ دائر کیا ہے، جس میں طلبہ کا کہنا ہے کہ انہیں غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف مظاہرے کرنے پر غیرقانونی گرفتاری اور انتقامی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکن-عرب اینٹی ڈسکریمینیشن کمیٹی (اے ڈی سی ) کی جانب سے طلباء کی نمائندگی میں بدھ کو سان انٹونیو کی امریکی ڈسٹرکٹ کورٹ میں دائر کیے گئے مقدمے میں یو ٹی آسٹن کے صدر جے ہارٹزل، ایبٹ اور قانون نافذ کرنے والے اہلکاروں پر۲۴؍ اپریل۲۰۲۴ء کے کیمپس احتجاج کے دوران فلسطین کی حمایت میں تقریر کو جان بوجھ کر دبانے کا الزام لگایا گیا ہے۔ دائر کی گئی درخواست کے مطابق، ایبٹ نے ہارٹزل کی ایماء پر فسادات سے نمٹنے والی پولیس کو بڑے پیمانے پر گرفتاریاں کرنے کا حکم دیا، جس سے مظاہرین کے اجتماع اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے کے حقوق کی خلاف ورزی ہوئی۔
یہ بھی پڑھئے: ہارورڈ یونیورسٹی نے کیمپس میں یہود دشمنی اور اسلامو فوبیا کیلئے معافی مانگی
مقدمے کے جواب میں یو ٹی آسٹن کے ترجمان مائیک روزن نے گرفتاریوں کے بعد یونیورسٹی کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ کیمپس کی حفاظت کو یقینی بنانے اور احتجاج کے قوانین کو نافذ کرنے کیلئے کارروائی کی تھی، اور زیادہ تر گرفتار شدہ افراد یونیورسٹی سے باہر کے تھے۔ ایبٹ کے دفتر نے تبصرے کی درخواست پر فوری طور پر کوئی جواب نہیں دیا۔ گرفتاریوں کے دوران سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں ایبٹ نے کہا تھا’’ ٹیکساس میں یہودی مخالف رویہ برداشت نہیں کیا جائے گا۔‘‘
یہ مقدمہ۲۰۲۴ء کے موسم بہار میں امریکی یونیورسٹیوں، قانون نافذ کرنے والے اداروں اور ریاستی لیڈروں کے خلاف فلسطین کی حمایت میں طلباء کے احتجاج کے سلسلے میں دائر کیے گئے مقدمات کی لہر میں سے ایک ہے۔ مقدمے میں نامزد دو طلباء نے کہا کہ وہ دوسروں کو ان کے جیسے جسمانی اور ذہنی نقصان سے بچانا چاہتے ہیں۔ دوسرے سال کی طالبہ آرون ہیلرین نے کہاکہ’’ گرفتاری کے بعد انہیں ریاستی قانون ساز اسمبلی میں انٹرن شپ چھوڑنی پڑی اور انہیں پوسٹ ٹرامیٹک اسٹریس ڈس آرڈر کی تشخیص ہوئی۔
یہ بھی پڑھئئے: فرانس: پارلیمنٹ نے مسجد حملےمیں شہید نمازی کو خراج عقیدت پیش کیا
میاسسکو نے کہا کہ یونیورسٹی کے خلاف مقدمہ دائر کرنا اور بھی ضروری ہو گیا جب انہوں نے دیکھا کہ ٹرمپ انتظامیہ فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والے غیر ملکی طلباء کو ملک بدر کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تیسرے سال کی طالبہ سسکو نے کہا، ’’یہ واقعی بہت ضروری اور اہم ہے کہ ہم یہ کہیں کہ یہ ٹھیک نہیں ہے۔‘‘ گرفتاری کے بعد پولیس نے ان کا حجاب زبردستی اتار لیا تھا۔
ٹریوس کاؤنٹی اٹارنی آفس کے مطابق، احتجاج میں درجنوں مظاہرین کو حراست میں لیا گیا تھا، جنہیں دو دن بعد رہا کر دیا گیا کیونکہ الزامات ثابت کرنے کے لیے کوئی معقول وجہ نہیں تھی۔ مقدمے کے مطابق، گرفتار ہونے والے تمام طلباء کو یونیورسٹی کی جانب سے انضباطی کارروائی کا سامنا کرنا پڑا۔ اے ڈی سی کے ڈائریکٹر عابد ایوب کا خیال ہے کہ زیادہ تر امریکی، خاص طور پر ٹیکساس کے لوگ، فلسطین کی حمایت میں مظاہرہ کرنے والوں کے آزادانہ اظہار کی حمایت کرتے ہیں۔ ایوب نے کہا، ’’گورنر ایبٹ اور دوسرے لوگوں کو اس بات کا اندازہ نہیں ہے کہ امریکی عوان پہلی ترمیم کے حقوق کو کس قدر اہمیت دیتے ہیں۔ ‘‘