Inquilab Logo

وہ خاندان جس میں ۲۵؍حفاظ اورعلماء موجود ہیں

Updated: April 07, 2024, 5:05 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

حفاظ اورعلماء کی تیسری نسل پروان چڑھ رہی ہے، آئندہ بھی یہ سلسلہ جاری و ساری رکھنے کا عزم ہے۔

Hafiz Naseem Ahmad Rafiq Ahmed. Photo: INN
حافظ نسیم احمدرفیق احمد۔ تصویر : آئی این این

ملئے چالیس گاؤں میں ۲۹؍سال سےامامت اور تراویح پڑھانے والے حافظ نسیم احمدرفیق احمد تیلی سے جن کے خاندان میں ایک دو نہیں ۲۵؍ حفاظ اور علماء ہیں۔ اس خاندان میں حافظ اورعالم بنانے کا شوق ان کے دادا بھلّن کے زمانے سے شروع ہوا اور اس می ںاضافہ ہوتا گیا۔ وہ عالم یا حافظ تو نہیں تھے لیکن دینی مزاج رکھتے تھے اور صوم وصلوٰۃ کے پابند تھے۔ 
جس طرح دیگر خاندانوں میں ڈاکٹر انجینئر اوردیگر شعبوں کے ماہر بنانے کا شوق ہوتا ہے اسی طرح اس خاندان میں عالم اور حافظ بنانے کا شوق ہے۔ اس کا اندازہ اس سے بھی کیاجاسکتا ہے کہ حافظ نسیم کے بڑے والد حافظ علاء الدین بہت اچھے حافظ تھے جنہوں نے ۵۲؍ برس تک غازی آباد میں امامت وخطابت کے فرائض انجام دیئے۔ چند سال قبل وہ دارِ فانی سے کوچ کرچکے ہیں۔ ان کے بیٹے بھی عالم اورحافظ قرآن ہیں۔
دراصل یہ خاندان دہلی کا رہنے والا ہے۔ خاندان کے بیشتر افراد وہیں مقیم ہیں۔ حافظ نسیم احمد تلاش معاش میں برسوں قبل گھر سے نکلے اور چالیس گاؤں میں بس گئے۔ یہاں وہ مسجد قباء میں امام وخطیب ہیں۔ حافظ نسیم کے ۴؍بیٹوں میں سے ایک حافظ عادل قمری ہیں جو امبر کھیڑ میں تراویح پڑھارہے ہیں، اس سے قبل ۳؍ سال وہ دوسرے مقامات کی مساجد میں تراویح پڑھا چکے ہیں۔ ایک بیٹا عالمیت کے آخری سال میں ہے اور چھوٹے ۲؍ بیٹے بھی حفظ کررہے ہیں۔ اسی طرح دیگر بھائی اوران کی اولادیں ہیں جنہوں نے حفظ کیا اورعالم بنے اور آج وہ الگ الگ مقامات پرتراویح پڑھا رہے ہیں۔ 
 گلے میں خراش اور پڑھتے پڑھتے آواز بند ہو جانے کی پریشانی کی بناء پرامسال حافظ نسیم نے تراویح نہیں پڑھائی حالانکہ وہ تیاری کئے ہوئے تھے۔ علاج معالجہ کے بعد اب افاقہ ہے اور آئندہ سال تراویح پڑھانے کے لئے ابھی سے پُرعزم ہیں۔ انہیں یہ افسوس ہے کہ وہ تراویح نہیں پڑھا سکے، دورانِ گفتگو ان کی آواز اور انداز سے بھی ان کا یہ درد چھلکتا ہوا محسوس ہوا۔ 
حافظ نسیم احمد نے مدرسہ نورالقرآن آدم پور ضلع مظفر نگر میں ۲۹؍سال قبل حافظ خورشید احمد کے پاس حفظ کیا۔ اب ان کے استاد دیوبند میں مقیم ہیں۔ ان کے اندازِ درس کے تعلق سے حافظ نسیم نے بتایاکہ’’ سبق سنانے میں اگرغلطی ہوگئی تو سمجھ لیجئے خیر نہیں ہوتی تھی، پٹائی کے علاوہ فوراً لوٹا دیتے تھے کہ صحیح صحیح یاد کرکے آؤ اورسبق سنانے میں ایک بھی غلطی نہیں ہونی چاہئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ حافظ صاحب کہتے تھے کہ سبق جتنا پختہ ہوگا اتنا ہی پختہ سبق پارہ (جس پارہ میں سبق ہو) پختہ ہوگا ،اسی طرح آموختہ اچھا یاد رہے گا ورنہ کچا سبق سنانے پر سبق پارہ اور آموختہ دونوں کے بھول جانے کا اندیشہ رہے گا اور پھر اسے پکّا کرنے کے لئے تقریباً سبق کی طرح ہی دوبارہ محنت کرنی ہوگی جو سبق یاد کرنے سے کہیں زیادہ دشوارگزار مرحلہ ہوگا۔‘‘
حافظ نسیم احمد کے مطابق ’’ہمارے والد ۴؍ بھائی تھے۔ سبھی کثیر الاولاد ہیں، خود میرے ۱۰؍ بھائی بہن ہیں۔ سبھی کی یہ کوشش ہوتی تھی اورآج بھی وہ سلسلہ ہماری نسلوں میں جاری ہے کہ تمام اولادیں حافظ اورعالم بن کرقرآن وسنت کی خدمت کرنے والی بنیں۔ خدا کا شکر ہے کہ یہ سلسلہ اب تیسری نسل میں منتقل ہوچکا ہے اور آئندہ مزید دراز ہوگا۔ قرآن کریم سے تعلق اور یاد کرنے کی یہ برکت ہے کہ اللہ پاک نے ہم تمام بھائیوں کو معاشی طور پرخوش حال بنایا ہے اور سبھی روزی روٹی سے لگے ہوئے ہیں۔ ‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK