• Sun, 13 October, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

گیان واپی مسجد تنازع میں ہائیکورٹ کا فیصلہ محفوظ

Updated: December 09, 2023, 9:14 AM IST | Agency / Muhammad Tariq Sharaf | Lucknow

پانچ عرضداشتوں پر ہائی کورٹ ایک ساتھ سماعت کررہا ہے، ان میں تین عرضداشتیں ۱۹۹۱ء میں وارانسی کی عدالت میں پیش کردہ کیس سے جڑی ہیں، جبکہ دو عرضیاں اے ایس آئی سروے کے حکم کے خلاف ہیں۔فیصلہ سنانے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

An old photograph of the Gyan Vapi Masjid in Varanasi, said to have been built in 1669.. Photo: INN
وارانسی میں واقع گیان واپی مسجد کی ایک پرانی تصویر، بتایا جاتا ہے کہ یہ مسجد ۱۶۶۹ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ تصویر : آئی این این

الٰہ آباد ہائی کورٹ نے مسلسل ۳؍ دنوں تک شنوائی کے بعدجمعہ کو ۱۹۹۱ء میں داخل ہندو فریق کی ایک عرضی کے سلسلہ میں داخل مقدمات پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔ حالانکہ جسٹس روہت رنجن اگروال نے فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ کا اعلان نہیں کیا ہے۔ الٰہ آباد ہائی کورٹ کو خاص طور پر یہ طے کرنا ہے کہ وارانسی کی عدالت ملکیت سے جڑے مقدمہ کو سن سکتی ہے یا نہیں۔ گیان واپی مسجد سے متعلق پانچ عرضداشتوں پر ہائی کورٹ ایک ساتھ سماعت کررہا ہے۔ ان میں ۳؍ عرضداشتیں ۱۹۹۱ء میں وارانسی کی عدالت میں پیش کیس سے جڑی ہیں،جبکہ دو عرضیاں اے ایس آئی سروے کے حکم کے خلاف ہیں۔ وارانسی کی ضلع عدالت میں داخل ۱۹۹۱ء کے مقدمہ کے قابل سماعت ہونے کو  انجمن انتظامیہ مساجد اور سنی سینٹرل وقف بورڈ نے عدالت عالیہ میں چیلنج کیا ہے۔ 
 اس مقدمہ سے متعلق پانچ عرضداشتوں پر تقریباً دو سال تک جسٹس پرکاش پاڈیا کی عدالت میں شنوائی ہوچکی ہے اور ۲۸؍اگست ۲۰۲۳ء کو فیصلہ سنائے جانے کی تاریخ طے تھی لیکن چیف جسٹس پریتنکر دیواکر نے مذکورہ فیصلہ سنائے جانے سے عین قبل مقدمہ ان سے واپس لے لیا اور اپنی عدالت میں از سر نو سماعت کا حکم دیا،جہاں شنوائی کے دوران انجمن انتظامیہ مساجد نے سخت اعتراض کیا ۔ سینئر ایڈوکیٹ سیّد فرمان احمد نقوی نے عدالت میں موقف پیش کیاتھا کہ ۷۵؍دن بحث چلی، ۳؍ بار فیصلے کی تاریخ طے ہوئی اور فیصلہ آنے سے پہلے پتہ چلا کہ اب پھر سے سماعت ہوگی۔لیکن جسٹس پریتنکر دیواکر ۲۲؍نومبر کو سبکدوش ہوگئے جس کے بعد یہ مقدمہ جسٹس روہت رنجن اگروال کے سامنے پیش کیا گیا۔  قابل ذکر ہے کہ ۱۵؍اکتوبر۱۹۹۱ءکوسول کورٹ وارانسی میںایک مقدمہ دائر کیا گیا تھا کہ جس جگہ نماز ادا کی جارہی ہے وہ ہندوؤں کی ہے کیونکہ مغل بادشاہ اورنگزیب کے زمانے میں اس مندر کو توڑ کر اس پر مسجد تعمیر کر دی گئی تھی۔ان کے بقول، یہاں بھگوان وشیشور ناتھ کا مندر ہے۔مسلم فریقوں کے مطابق،  تمام دستاویز ان کے حق میں ہیں اور اس پر آزادی سے سیکڑوں برس قبل سے وہ عبادت کر رہے ہیں نیز پلیسز آف ورشپ ایکٹ - ۱۹۹۱ء اور وقف بورڈ کے ایکٹ کا حوالہ بھی دیا گیا تھا۔ معاملہ کی سماعت کے دوران ۸؍اپریل ۲۰۲۱ء کو سول جج سینئر ڈویژن جسٹس آشوتوش تیواری نے احاطہ کا محکمہ آثار قدیمہ کے ذریعہ سروے کرنے کا حکم دیا تھا جسے انجمن انتظامیہ مساجد اور یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ نے الٰہ آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کیا جس کے بعد جسٹس پرکاش پاڈیا پر مشتمل یک رکنی بنچ نے وارانسی سول کورٹ سینئر ڈویژن کے اس فیصلے پر روک لگا دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت ہند کا محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) پورے کمپلیکس میں سروے کرائے گا، جس کیلئے نچلی عدالت نے ایک پانچ رکنی کمیٹی کی تشکیل کا بھی حکم دیا تھا۔ ۲۸؍نومبر ۲۰۲۲ء کو معاملہ کی سماعت کررہے جسٹس پرکاش پاڈیا کی سنگل بنچ فریقین کی بحث مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرچکی تھی۔ کچھ نکات کی وضاحت کیلئے  ۲۶؍مئی کو پھر سے شنوائی ہوئی تھی۔ ۲۵؍جولائی ۲۰۲۳ء کو بھی جسٹس پرکاش پاڈیا نے ہائیکورٹ میں پہلے سے دائر ۵؍ عرضداشتوں پر فریقین کی وضاحت سنی ۔ سنی سنٹرل وقف بورڈ، انجمن انتظامیہ مساجد اور دیگر کی جانب سے داخل ان عرضیوں میں گیان واپی مسجد احاطہ کی ملکیت کے سلسلہ میں داخل سول مقدمہ کے قابل سماعت ہونے کو چیلنج کیا گیا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK