Updated: November 20, 2025, 6:01 PM IST
| New Delhi
عدالت نے بے نظیر حنا نامی صحافی کی مفاد عامہ کی درخواست کی تائید کی ، سوال قائم کیا کہ ’’کیا مہذب معاشرے کو اس کی اجازت دی جانی چاہیے؟‘‘
سپریم کورٹ۔ تصویر:آئی این این
نئی دہلی (ایجنسی): سپریم کورٹ کو اب طلاق حسن پر بھی اعتراض ہے۔ اسے ’’غیر آئینی ‘‘ قرار دینے کیلئے بے نظیر حنا نامی صحافی کے ذریعہ داخل کی گئی عرضی کی تائید کرتے ہوئے ملک کی سب سے بڑی عدالت نے طلاق کے اس طریقہ کار کو بھی ’’شدید ناانصافی‘‘ پر مبنی قراردیا اور اس بات کا اشارہ دیا کہ وہ اسے غیر آئینی قراردینے پر غور کرسکتی ہے۔ جسٹس سوریہ کانت، جسٹس اجول بھویاں اور جسٹس این کوٹیشور سنگھ پر مشتمل سہ رکنی بنچ نے سوال قائم کیا کہ ’’کیا مہذب معاشرہ میں (طلاق دینے کے ) اس(طریقے) کی اجازت دی جاسکتی ہے؟‘‘
بنچ نے اشارہ دیا کہ طلاق ِ حسن کو غیر آئینی قرار دینے پر سنجیدگی سے غور کرنے اوراس کے قانونی پہلوؤں کو دیکھتے ہوئے وہ اسے ۵؍ججوں کی آئینی بنچ کے پاس بھیجنے پر بھی غور کر رہی ہے۔ اس کے ساتھ ہی بنچ نے اس کیلئے متعلقہ فریقوں کواس پراٹھنے والے سوالات پر مشتمل نوٹ بھی پیش کرنے کی ہدایت دی۔
عدالت نے کہا کہ جب آپ ہمیں ایک مختصر نوٹ فراہم کر دیں گے تو ہم اس معاملے کو ۵؍ ججوں کی بنچ کے پاس بھیجنے کے امکان پر غور کریں گے۔عدالت نے مزید کہا کہ ہمیں وہ سوالات بتایئے جو طلاق احسن پر اٹھتے ہیں۔عدالت نے کہا کہ چونکہ یہ عمل معاشرے کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے، اس لیے عدالت کو اصلاحی اقدامات کرنے پڑ سکتے ہیں۔جسٹس سوریہ کانت نے کہا کہ جب کوئی عمل معاشرے کو بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے تو عدالت کو اصلاحی اقدامات کرنے کے لیے مداخلت کرنی پڑتی ہے بنچ نے طلاق حسن کی مطابقت پر متعددسوالات اٹھاتے ہوئے پوچھاکہ ’یہ کس طرح کی چیز ہے؟ آپ۲۰۲۵ءمیں اس کو کس طرح سے فروغ دے سکتےہیں؟ کیا اس طرح عورت کی عزت برقرار رہے گی؟ کیا مہذب معاشرے کو اس طرح کی اجازت دینی چاہیے؟ واضح رہے کہ طلاق حسن میں شوہر بیوی کو تین طہور میں ۳؍ طلاق دیتا ہے۔ بے نظیر حنا جو خود صحافی کہتی ہے، کی طرف سے دائر کی گئی مفاد عامہ کی عرضی میں اس پر مکمل پابندی کا مطالبہ کیا گیا ہے اور اسے آئین کی دفعہ ۱۴،۱۵ ، ۲۱، اور ۲۵؍کی خلاف ورزی قرار دیا گیا ہے۔ درخواست گزارکا الزام ہے کہ اس کے شوہر نے مبینہ طور پرایک وکیل کے ذریعہ طلاق حسن کا نوٹس بھیج کر اسے طلاق دے دی تھی کیونکہ اس کے خاندان نے جہیز دینے سے انکار کر دیا تھا۔