محکمۂ آثار قدیمہ نے ۲؍ ہزار صفحات پر مشتمل سروے رپورٹ مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ کی اندور بینچ کو سونپ دی، ۲۲؍ جولائی کو سماعت ہوگی۔
EPAPER
Updated: July 16, 2024, 10:55 AM IST | Bhopal
محکمۂ آثار قدیمہ نے ۲؍ ہزار صفحات پر مشتمل سروے رپورٹ مدھیہ پردیش کی ہائی کورٹ کی اندور بینچ کو سونپ دی، ۲۲؍ جولائی کو سماعت ہوگی۔
محکمہ آثار قدیمہ (اے ایس آئی) نے دھار ضلع میں واقع بھوج شالہ کا سروے مکمل کر لیا ہے اور اپنی ۲؍ ہزار صفحات کی رپورٹ مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی اندور بینچ کو سونپ دی ہے۔ اب اس معاملے کی سماعت ۲۲؍ جولائی کو ہو گی۔ سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ہائی کورٹ اس رپورٹ کی بنیاد پرتقریباً۲۰؍سال قبل نافذ کیے گئے نظام کو بدل دے گی؟ جس کے تحت یہاں مسلمانوں کو جمعہ کو نماز کی اجازت ہے اور ہندوؤں کو منگل کو پوجا کرنے کی۔ ہندو فریق کے وکیل نے دعویٰ کیا ہے کہ سروے کے دوران ایسے کئی شواہد ملے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ یہاں کوئی مندر تھا۔ ہندوفریق کے عرضی گزار کا دعویٰ ہے کہ یہاں سروے کے دوران دیوی دیوتاؤں کی ۹۴؍ مورتیاں ملی ہیں۔
دھار ضلع میں ۱۱؍ویں صدی کے اس کمپلیکس کا تنازع کوئی نیا نہیں ہے۔ ہندو برادری بھوج شالا کو واگ دیوی (سرسوتی دیوی) کا مندر مانتی ہے جبکہ مسلمان اسے کمال مولا مسجد کہتے ہیں۔ ۱۱؍ مارچ کو ہندو فرنٹ آف جسٹس کی عرضی پر ہائی کورٹ نے اے ایس آئی کو بھوج شالا کمپلیکس کا سائنسی سروے کرنے اور ۶؍ ہفتے میں رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔ تاہم اے ایس آئی نے رپورٹ پیش کرنے کے لیے مزید وقت مانگا۔ وقت میں۳؍ مرتبہ توسیع کی گئی۔۴؍ جولائی کو ہائی کورٹ نے اے ایس آئی کو ۱۵؍ جولائی تک اپنی مکمل رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت دی تھی۔
ہندو فرنٹ آف جسٹس کے وکیل ایڈوکیٹ وشنو شنکر جین کاکہنا ہےکہ اس معاملے میں محکمہ آثار قدیمہ کی رپورٹ اہم ہے۔ اے ایس آئی کی رپورٹ نے ہمارے کیس کو مضبوط کیا ہے۔ ہم نے مدھیہ پردیش ہائی کورٹ کی اندور بینچ کے سامنے کہا تھا کہ یہ احاطہ ہندو مندر کا ہے۔ اسے مسجد کی طرح استعمال کیا جا رہا ہے۔ اے ایس آئی نے۲۰۰۳ء میں جو حکم جاری کیا وہ بالکل غلط ہے۔ ملک کے شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے لیکن اب اے ایس آئی کی رپورٹ میں ہمارے موقف کو تقویت ملی ہے۔ سپریم کورٹ نے اس کیس کی کارروائی پر روک لگا دی ہے۔ اس وجہ سے ہم سپریم کورٹ جا رہے ہیں۔
ایڈوکیٹ ہری شنکر جین کا کہنا ہے کہ رپورٹ میں یہ بات ثابت ہو چکی ہے کہ وہاں پہلے ہندو مندر تھا اور کوئی اس کی تردید نہیں کرسکتا۔وہاں وید، سنسکرت اور مذہبی تعلیم وتربیت کا بھی مرکز تھا ،اس لئے اس جگہ پر صرف پوجا ہی ہو سکتی ہے۔ اے ایس آئی کا۷؍اپریل۲۰۰۳ء کو نماز پڑھنے کا حکم غیر آئینی ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ۹۴؍سے زیادہ ٹوٹی ہوئی مورتیاں ملی ہیں۔ وہاں کے تمام ستونوں پر ویدوں اور صحیفوں کے نشانات لکھے ہوئے پائے گئے ہیں۔ پرانے نوادرات ملے ہیں اور اس میں اتنا مواد موجود ہے کہ کوئی بھی دیکھ سکتا ہے کہ یہ ایک ہندو مذہبی اسکول اور مندر تھا۔
۷؍ اپریل ۲۰۰۳ء کا کیا حکم نامہ ہے؟
اے ایس آئی نے۲۲؍ مارچ کو اس متنازع کمپلیکس کا سروے شروع کیا تھا۔ یہ سروے تقریباً تین ماہ تک جاری رہا۔ دراصل، سارا تنازع ایجنسی کے۷؍ اپریل ۲۰۰۳ء کے حکم سےمتعلق ہے ۔ ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان تنازع بڑھنے پر اے ایس آئی نے احاطے میں داخلے کو محدود کرنے کا حکم جاری کیا تھا ۔ حکم کے بعد ہندوؤں کو صرف منگل کو بھوج شالا میں پوجا کی اور صرف جمعہ کو مسلمانوں کو نمازپڑھنے کی اجازت تھی۔ ہندو فرنٹ فار جسٹس نے اس سسٹم کو چیلنج کیا ہے۔
معاملہ سپریم کورٹ میں بھی جائے گا
بھوج شالا کے معاملے پرمسلم فریق پہلے ہی سپریم کورٹ پہنچ چکی ہے ۔ مولانا کمال الدین ویلفیئرسوسائٹی نے مسجد کاسروے کرانے کے ہائی کورٹ کے حکم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا ہے ۔ سپریم کورٹ نے اے ایس آئی کو ہدایت دی تھی کہ سروے کے دوران بھوج شالہ کی ڈھانچہ جاتی ساخت کو نقصان نہیں پہنچنا چاہئے۔ ساتھ ہی ہائی کورٹ کو سخت ہدایات دی گئیں کہ وہ فی الحال اس پر کوئی فیصلہ نہیں سنا سکے گی۔ اسی وجہ سے ہندو فریق اب اے ایس آئی کی رپورٹ کی بنیاد پر سپریم کورٹ جانے کی تیاری کررہا ہے۔
رپورٹ عام نہیں کی جائیگی
اے ایس آئی رپورٹ کی کاپیاں فریقین کے حوالے کی جائیں گی۔ عدالت نے فریقین کو رپورٹ عام نہ کرنے کی سخت ہدایت دی ہے۔دھار بھوج شالہ کی تاریخ برسوں پرانی ہے۔ برطانوی راج کے دوران ۱۹۰۲ء میں بھی محکمہ نےبھوج شالہ کا سروے کیا تھا۔ مندر کے علاوہ، اس وقت کی رپورٹس میں کمپلیکس کے ایک حصے میں مسجد کا بھی ذکر ہے۔ سماعت کے دوران ہائی کورٹ نے نئے سرے سے سروے کی ہدایات دی تھیں۔