Inquilab Logo

دو ریاستی فارمولہ ہی مسئلۂ فلسطین کا حل ہوسکتا ہے :عرب یورپی ممالک

Updated: September 26, 2020, 12:46 PM IST | Agency | Uman

اردن ، فرانس، جرمنی اور مصرکے وزرائے خارجہ کا اجلاس، اسرائیل اور فلسطین سے گفتگو کی میز پر آنے اور سنجیدگی دکھانے کی اپیل

Foreign Ministers of the four countries during the meeting. Picture: Agency
اجلاس کے دوران چاروں ممالک کے وزرائے خارجہ۔ تصویر: ایجنسی

عرب اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل اور فلسطین کے تنازعہ کا خاتمہ دو ریاستی حل کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ایک نیوز ایجنسی کے مطابق عرب اور یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کے لئے اردن میں ایک اجلاس منعقد کیا تھا جس میں  اردن، مصر، فرانس کے وزرائے خارجہ نے  براہ راست شرکت کی تاہم کورونا وائرس کی وجہ سے قرنطینہ میں موجود جرمنی کے وزیرخارجہ اجلاس میں آن لائن شریک ہوئے۔ اجلاس میں شرکا نے اسرائیل اور فلسطین کو دوبارہ مذاکرات شروع کرنے پر زور دیتے ہوئے کہا کہ دو ریاستی حل ہی واحد راستہ ہے جس کے ذریعے طویل عرصے سے جاری اسرائیل فلسطین تنازعہ کا خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ حالانکہ ان ممالک نے  حال ہی میں متحدہ عرب امارات اور بحرین کی جانب سے اسرائیل کے ساتھ تعلقات بحال کرنے  کے فیصلے کو ایک  تاریخی اقدام قرار دیتے ہوئے اس عمل کو خوش آئند قرار دیا۔ شرکاء کا کہنا تھا کہ ان معاہدوں سے ظاہر ہوتا  ہے کہ خطے میں امن ممکن ہے۔مصر کے وزیرخارجہ کا کہنا تھا کہ یہ ایک اہم اقدام ہے جو مشرق وسطیٰ میں امن کے عمل کو مزید آگے بڑھائے گا۔ اردن کے وزیرخارجہ نے کہا کہ دو ریاستی حل کے بغیر خطے میں جامع اور دیرپا امن ممکن نہیں۔ فرانسیسی وزیرخارجہ نے کہا کہ دو ریاستی حل کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں ہے، ہم اس عمل کی حمایت کرنے کیلئےتیار ہیں تاہم دونوں ممالک کو مذاکرات کیلئے سنجیدگی ثابت کرنی  ہوگی۔واضح رہے مصر اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا والا پہلا عرب ملک تھا جس  نے ۱۹۷۹ء میں اسرائیل کے ساتھ امن معاہدہ کیا تھا جس کے بعد اردن نے ۱۹۹۴ء میں یہ معاہدہ کیا جبکہ حال ہی میں دو عرب ممالک (متحدہ عرب امارات اور بحرین) نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے دباؤ پر اسرائیل سے امن معاہدہ کیا۔ویسے دیکھا جائے تو اس اجلاس میں سبھی اسرائیل کے دوست ممالک شریک تھے ۔ ۲؍ یورپی ممالک اور ۲؍ ایسے عرب ممالک جو پہلے ہی اسرائیل کو تسلیم کر چکے ہیں۔ ایسی صورت میں اس اجلاس کی فلسطینیوں کی نظر میں کیا اہمیت ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔ اس  کے باوجود اس اجلاس میں اسی بات پر زور دیا گیا جس کا مطالبہ عرب ممالک ۲۰۰۲ء سے کرتے چلے آئے ہیں ۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK