• Sun, 07 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’بابری مسجد کازخم ہمیشہ تازہ رہے گا، مسلمان کبھی فراموش نہیں کرسکتے‘‘

Updated: December 07, 2025, 10:23 AM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

۳۳؍ویں برسی پر رضا اکیڈمی کی جانب سے۳؍مقامات پراذانیں دی گئیں۔ پولیس نے بھنڈی بازارچوراہے پر اذان دینے کی اجازت نہیں دی۔ عظیم ایجوکیشن سوسائٹی کے صدرنے بھی بائیکلہ میں اپنے دفتر میں اذا ن دی

Raza Academy workers giving the call to prayer. Picture: INN
رضا اکیڈمی کے کارکن اذان دیتے ہوئے۔ تصویر:آئی این این
۶؍دسمبر۲۰۲۵ء کو بابری مسجد شہادت کی ۳۳؍ ویں برسی پر رضا اکیڈمی کی جانب سے حسبِ اعلان ۳؍ بجکر ۴۵؍ منٹ پر مینارہ مسجد، کھتری مسجد اور نواب ایاز مسجد مانڈوی پوسٹ آفس کے پاس اذانیں دی گئیں۔ 
پولیس نے منع کیا 
بھنڈی بازارچوراہے پربھی اذان دی جاتی تھی لیکن گزشتہ سال اورامسال بھی پولیس کی جانب سے اجازت نہیں دی گئی۔اس تعلق سے رضا اکیڈمی کے سربراہ الحاج محمد سعید نوری کوڈونگری پولیس اسٹیشن بلایا گیا اور ان سے کہا گیا کہ وہ امسال بھی بھنڈی بازار چوراہے پراذا ن کا اہتمام نہ کریں۔ سعیدنوری کی جانب سے پولیس کویہ یقین دلایا گیاکہ اذان دینے کے وقت ٹریفک کا مسئلہ نہیں ہوگا ،نہ ہی پہلے کبھی ہوا ہے پھر بھی پولیس نےانکار کردیا ۔البتہ مذکورہ بالا مقامات پر اذانیں دی گئیں۔ 
اس موقع پرموجود علماء اور مقامی افراد اور بچے ہاتھوں میں پلے کارڈ لئےتھےاس پر الگ الگ نعرے لکھ کربابری مسجدکو یاد کیاگیا تھا۔ ایک کمسن بچی ہاتھوں میں ایک پلے کارڈ لئے ہوئےتھی جس پر ۶؍ دسمبر کی تاریخ سے لہو ٹپکتا ہوا دکھایا گیا تھا ۔اس پرلکھا ہوا تھا: ’’بابری مسجد دوبارہ تعمیر کی جائے۔‘‘
ؕمسلمان کیسے بھول سکتے ہیں؟
رضااکیڈمی کے سربراہ سے نمائندۂ انقلاب کے یہ پوچھنےپر کہ اب بھی اذان کے اہتمام کے ذریعے آپ کیا پیغام دینا چاہتے ہیں تو انہوں نےکہاکہ’’ہم آج بھی یہ سمجھتے ہیںکہ ۶؍دسمبر ۱۹۹۲ء کوجو کچھ ہوا اور جس طرح امن دشمنوں نےرب العالمین کے مقدس گھر کوشہید کیا وہ ہندوستان کی تاریخ کا ایک سیاہ دن تھا، بابری مسجد کی شہادت کےذریعے مسلمانوں کو ایسا زخم دیا گیا جسے کبھی فراموش نہیںکیا جاسکتا نہ ہی وہ زخم مندمل ہوسکتا ہے۔‘‘
انہوں نے یہ بھی کہاکہ ’’ہم اذان کے ذریعے یہ بتانا چاہتے ہیںکہ جو موقف ہمارا اس وقت تھا،آج بھی ہم اسی پرقائم ہیںکہ بابری مسجد کی شرعی حیثیت ختم نہیں کی جاسکتی، وہ قیامت تک بابری مسجد ہی رہے گی خواہ عدالت کےفیصلے کے بعد وہاں مندر تعمیر کیوں نہ کردیا گیا ہو؟ اس کےساتھ ہی مسلمان اچھی طرح یہ جانتے ہیںکہ سپریم کورٹ نے ہمارے موقف کی تائید کی تھی،  فریق مخالف کے دعوؤں کومسترد کیا تھا اور حقائق کے برخلاف آستھا کی بنیاد پرفیصلہ سنایا گیا تھا  لہٰذا یہ بھی مسلمانوں کےموقف کی تائید ہی تھی۔ اسی لئے اذان کااہتمام کرتے ہوئے ہم ہرسال اس کا اظہار کرتے ہیں کہ بابری مسجد سے مسلمان دستبردار نہیںہوئے ہیں وہ اپنےآئینی اورشرعی موقف پرقائم ہیں۔‘‘
رضا اکیڈمی کے سربراہ نے مشورہ دیا کہ ’’ہم سب اپنےبچوں اور نئی نسل کےسامنے بابری مسجد کاتذکرہ کرتے رہیںتاکہ وہ بابری مسجد سے واقف رہے اور اس کو یہ بھی پتہ چل سکے کہ ۳۳؍برس قبل کس طرح بابری مسجد شہید کی گئی تھی؟ ‘‘
اذان دینے والوں میںشامل مولانا امان اللہ رضا نے کہا کہ ’’کوئی کچھ کہے لیکن مسلمان بابری مسجد کو کبھی بھلا نہیںسکتے، اذان اسی کی یاد دہانی ہے۔‘‘ مولانا محمد عباس رضوی نے کہا کہ ’’بابری مسجد کی شہادت ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔ مسلمانانِ ہند نہ تو بابری مسجد کو بھلا سکتے ہیںاورنہ ہی حکومت کی زیادتی اورآستھا کی بنیاد پردیا گیا فیصلہ ۔‘‘مولانا محمود علی خان نے کہا کہ’’ بابری مسجد کی شہادت کو فراموش کرنا ممکن ہی نہیںہے مگر ایک تلخ حقیقت یہ بھی ہے کہ فرقہ پرستوں کی نگاہیں دیگر مساجد پربھی ہیں، ان سے مسلمانوں کوچوکنّا رہنا ہےتاکہ دوبارہ ایسا زخم نہ لگ سکے۔‘‘
۱۹۹۳ءسے اذان کا اہتمام کیاجاتا ہے 
اسی دوران عظیم ایجوکیشن سوسائٹی کے صدرخالد انصاری (کرلا) نے بتایاکہ’’ ۱۹۹۳ء سے اذان دینے کا اہتمام کیا جارہا ہے ۔ پہلے اپنے محلے قریش نگر میںکیا جاتا تھا، تین برس سے اپنے دفتر بائیکلہ میں کرتے ہیں۔ اذان کے اہتمام کا مقصد بابری مسجد کی یاد تازہ کرنا اور یہ بتانا ہےکہ اب بھی مسلمان بابری مسجد سے دستبردار نہیں ہوئے ہیں۔‘‘ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK