• Mon, 17 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’آئین مخالف تبدیلیٔ مذہب بل لانے کی ضرورت ہی نہیں‘‘

Updated: November 17, 2025, 2:39 PM IST | Saeed Ahmed Khan | Mumbai

بامبے کیتھولک سبھا کی اس بل کے خلاف مہم کے تحت خصوصی نشست۔ وزیر اعلیٰ ، نائب وزرائے اعلیٰ ،سیاسی لیڈران اوراراکین اسمبلی سے ملاقات اور انہیں میمورنڈم دینے پر اتفاق۔

Participants in a special session at St. Paul`s Church in Borivali`s IC Colony. Picture: Inquilab
بوریولی کی آئی سی کالونی میں واقع سینٹ پال چرچ میں خصوصی نشست میں شریک افراد۔ تصویر: انقلاب
ریاستی حکومت کی جانب سے تبدیلیٔ مذہب مخالف بل  جسے اسی سرمائی اجلاس میں حکومت نے متعارف کرانے کا فیصلہ کیا ہے، کے خلاف بامبے کیتھلک سبھا نے اتوار کو  پھر صدائے احتجاج بلند کی۔ آئی سی کالونی (بوریولی) کے سینٹ پال چرچ  ہال  میں خصوصی نشست منعقد کی گئی جس میں واضح طور پر کہا گیا کہ حکومت کا یہ قدم مذہبی آزادی کے آئینی حقوق کے صریح خلاف ہے ۔ یہ بل لانے کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے اس لئے حکو‌مت یہ بل لانے کا ارادہ ترک کردے۔
کیا طے کیا گیا؟
آئی سی کالونی چرچ میں اس متنازع بل کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے ہوئے یہ طے پایا کہ اس بل کو کسی صورت پاس نہیں کیا جانا چاہئے۔ اس لئے اوّل وزیراعلیٰ اور نائب وزرائے اعلیٰ سے ملاقات کرکے میمورنڈم دیا جائے، دوسرے تمام سیاسی جماعتوں کے لیڈران اور اراکین اسمبلی سے ملاقات کی جائے اور انہیں بتایا جائے ، تیسرے اپوزیشن لیڈران سے ملاقات کی جائے، چوتھے مختلف مذاہب کے ذمہ دار اشخاص اور اہم شخصیات سے ملاقات کی جائے اور انہیں یہ بتایا جائے کہ یہ بل کسی ایک مذہب کے خلاف نہیں بلکہ تمام مذاہب کے حق میں انتہائی خطرناک ہے ۔ اگر یہ بل آگیا تو پسند کے مذہب اپنانے کی آئینی آزادی ختم ہوجائے گی۔ اس طرح یہ حکومت ایک ایک آئینی حق سلب کرتی رہے گی۔ کیا ایسے میں ہم تماشائی بنے رہیں گے؟ مہاراشٹر میں تو   اس قسم کی کسی بل کی قطعی ضرورت نہیں ہے۔
یاد رہے کہ مہاراشٹر حکومت نے اس بل کے ذریعے یہ باور کرانے کی کوشش کی ہے کہ دھمکی ، زور زبردستی یا لالچ دے کر مذہب تبدیل کرنے کی کوششوں اور اس طرح کی سرگرمیوں پر قدغن لگانا بنیادی مقصد ہے جبکہ یہ بے محل اور لغو ہے۔
’’ایسے کسی بل کی ضرورت نہیں‘‘
اس تعلق سے بامبے کیتھولک سبھا کے ترجمان ڈولفی ڈیسوزا نے نمائندۂ انقلاب سے بات چیت کرتے ہوئے  یہ بھی واضح کیا کہ اس کی زد میں محض کیتھولک ہی نہیں بلکہ دیگر مذاہب بھی آئیں گے اور سب کے آئینی حقوق پر ضرب پڑے گی۔ اسی لئے اتوار کو باہم تفصیلی گفتگو کی گئی اور مہم کو آگے بڑھانے کیلئے مذکورہ بالا  کچھ اہم نکات طے کئے گئے۔ اس کے ساتھ ہی آئندہ ہفتے کرلا اور اس کے بعد اورلیم چرچ میں ایسی نشستیں ہوں گی اور مل جل کر آگے بڑھا جائے گا۔انہوں نے اس بات کا اعادہ کیا  کہ ہمیں اس  پر سخت تشویش ہے کہ اس بل کو دسمبر میں ناگپور میں ہونے والے سرمائی اجلاس میں پیش کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ حکومت ایسے کسی بھی قدم سے باز رہے۔ بقول ڈولفی ڈیسوزا ’’حکومت کو عوامی مسائل پر توجہ مبذول کرتے ہوئے ان کے مسائل، بے روزگاری اور مہنگائی وغیرہ پر توجہ دینی چاہئے مگر اس کے برخلاف غیر ضروری بلکہ آئین مخالف بل کے ذریعے الجھایا جارہا ہے۔‘‘
 بل پاس ہونے سے کیا نقصانات ہوں گے؟
(۱) یہ بل آئینی حقوق کے خلاف ہے۔ ہندوستان کا آئین مذہبی آزادی کا مکمل حق فراہم کرتا ہے جس میں ضمیر کی آزادی، اپنے مذہب پر عمل کرنے، اس کی تبلیغ کرنے  کا حق آرٹیکل۲۵؍ میں دیا گیا ہے۔ (۲)مجوزہ بل رضاکارانہ مذہبی تبدیلیوں کو مجرم قرار دیتا ہے، جو کہ مذہب کے انتخاب میں شخصی آزادی میں  مداخلت ہے۔ (۳) یہ بل ہمدردی کی روح کو ختم کرنے کی ایک طرح سے دھمکی دیتا ہے ۔ ایسے میں ہر نیک عمل بد نیتی یا لالچ کے ذریعے تبدیلیٔ مذہب کی کوشش کے نام پر غلط طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔ اس طرح یہ بل مذہبی آزادی کے حق کو خطرے میں ڈال دیتا ہے اور دوسروں کے  اپنی پسند کے مذہب کے اختیار کی تبدیلی کے حق کو بھی محدود کرتا ہے۔ (۴) اس بل سے اقلیتوں کے نشانے پر آنے اور غلط استعمال کا خطرہ ہے۔ حالانکہ  بل کا ظاہری مقصد زبردستی یا دھوکے سے مذہب کی تبدیلی کو روکنا بتایا گیا ہے لیکن دیگر ریاستوں کے تجربات سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس طرح کے قوانین دراصل اقلیتی مذہبی گروہوں، فلاحی اداروں یا انفرادی طور پر مذہبی سرگرمیوں میں مصروف افراد کو ہراساں کرنے کیلئے استعمال کئے جا سکتے ہیں۔ (۵) یہ بل صرف مبینہ زبردستی مذہب کی تبدیلی کو روکنے کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کی آڑ میں  مذہبی اقلیتوں پر نگرانی، پالیسنگ اور امتیاز کے دروازے کھولنے والا  ہے ۔ (۶) اس بل کے ذریعے مختلف برادریوں کے درمیان اتحاد کے بجائے تفریق کو بڑھاوا دینے کا اندیشہ ہے۔ (۷) متعدد  عیسائی تنظیموں کا کہنا ہے کہ ان کا کام تعلیم، صحت  اور سماجی بہبود بلاتفریق مذہب  پیش کرنا ہے اور اس کی بنیاد  محض انسانی ہمدردی ہے۔ مجوزہ بل ایسی سرگرمیوں کو محدود یا مشکوک بنا سکتا ہے کیونکہ کسی بھی خدمت کو لالچ یا ترغیب کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے۔  (۸)  بل میں ’ترغیب‘  یا ’زبردستی‘ جیسے الفاظ کی مبہم تعریفیں شامل ہیں، جو غلط استعمال کا باعث بن سکتی ہیں۔ (۹) یہ بل مذہب بدلنے یا اپنے مذہب پر عمل کرنے کے بنیادی حق کو خطرے میں ڈالتا ہے اور مذہبی بنیاد پر خدمت یا رابطے کو بھی محدود کر سکتا ہے۔ 
بل کے تعلق کے ان اندیشوں کا تذکرہ اس سے قبل بھی کیا گیا تھا پھر اس کا اعادہ کیا گیا ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ بالکل اسی انداز کا یہ بل ہے جیسا کہ اس سے قبل پبلک سیفٹی بل تھا اور اس کا مقصد نکسل واد پر لگام کسنا بتایا گیا تھا مگر اس کے خلاف آواز بلند کرنے والوں کا کہنا تھا کہ دراصل حکومت ناانصافی اور من مانی کے خلاف صدائے احتجاج کو کچلنا چاہتی ہےورنہ کم ازکم بل کے مسودے میں ایک جگہ تو نکسل واد کا تذکرہ کیا گیا ہوتا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK