• Mon, 15 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’اس بار جواب ہی ایسا دیں گے کہ پھر کبھی سوال ہی نہیں اٹھے گا‘‘

Updated: December 15, 2025, 11:33 AM IST | Ejaz Abdul Ghani | Mumbai

ڈومبیولی میں بی جے پی کے بینرپر صرف رویندر چوہان کی تصویر۔

A local BJP leader has put up such banners. Picture: INN
بی جے پی کے مقامی لیڈر نے اس طرح کے بینر لگوائے ہیں۔ تصویر:آئی این این
ریاستی سیاست میں اتحاد اور یکجہتی کے دعوے ایک طرف زمینی حقیقت اس سے یکسر مختلف نظر آ رہی ہے۔ ابھی ایک روز قبل ہی بی جے پی کے ریاستی صدر رویندر چوہان نے یہ اعلان کیا تھا کہ آئندہ میونسپل کارپوریشن انتخابات زعفرانی اتحاد مہایوتی کے بینر تلے متحد ہو کر لڑے جائیں گے۔ لیکن اتوار کے روز انہی کے شہر ڈومبیولی میں نصب ہونے والا ایک جارحانہ بینر جس پر درج ہے کہ ’اس بار جواب ہی ایسا دیں گے، پھر کبھی سوال ہی نہیں اٹھے گا۔‘ اس بات کی واضح نشاندہی کرتا ہے کہ ریاستی سطح کے بیانات کے باوجود مقامی سطح پر شندے کی شیوسینا کے ساتھ رقابت اور اقتدار کی کشمکش بدستور برقرار ہے۔
ڈومبیولی کے بھوپر علاقے میں بی جے پی کے مقامی لیڈر سندیپ مالی کی جانب سے ریاستی صدر رویندر چوہان کی تصاویر والے بڑے بینرز کی تنصیب نےایک بار پھر مہایوتی اتحاد کے اندرونی تضادات کو عیاں کر دیا ہے۔ ان بینرز میں اگرچہ براہ راست کسی کا نام نہیں لیا گیا، تاہم پیغام اس انداز میں ترتیب دیا گیا ہے کہ نائب وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے کی قیادت والی شیوسینا پر بالواسطہ تنقید صاف محسوس ہوتی ہے۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ کلیان اور ڈومبیولی میں بی جے پی اور شیوسینا (شندے) کے درمیان سیاسی کشیدگی کوئی نئی بات نہیں۔ لوک سبھا اور اسمبلی انتخابات کے دوران شیوسینا کے رکن پارلیمنٹ ڈاکٹر شری کانت شندے اور بی جے پی کے رکن اسمبلی رویندر چوہان کے درمیان جاری سیاسی محاذ آرائی کھل کر منظر عام پر آ چکی ہے۔اب جبکہ رویندر چوہان بی جے پی کے ریاستی صدر جیسے کلیدی عہدے پر فائز ہیں اور پارٹی مرکز و ریاست دونوں سطحوں پرمضبوط پوزیشن میں ہے یہ تاثر گہرا ہو رہا ہے کہ بی جے پی تھانے ضلع میں شیو سینا (شندے ) کو سیاسی طور پر گھیرنے کی منظم حکمت عملی پر عمل پیرا ہے۔اگرچہ اعلیٰ قیادت کی جانب سے بارہا یہ اعلان کیا جا چکا ہے کہ آنے والے بلدیاتی انتخابات بشمول ممبئی، کلیان ڈومبیولی، تھانے اور الہاس نگر میں بی جے پی اور شندے گروپ مل کر لڑیں گے مگر زمینی حقائق ان دعوؤں کی تائید نہیں کرتے۔ 
مقامی ذرائع کے مطابق دونوں پارٹیوں کے سابق کارپوریٹرز اور انتخابی میدان میں اترنے کے خواہشمند امیدواروں کی نجی نشستوں میں یہ بات عام ہے کہ اتحاد عملی طور پر برقرار نہیں رہے گا۔اسی اندرونی یقین دہانی کے سہارے کئی امیدواروں نے آزادانہ طور پر انتخابی تیاری شروع کر دی ہے۔اپنے اپنے پینل تشکیل دئیے جا رہے ہیں۔ایک طرف قیادت اتحاد کے دعوے کر رہی ہے تو دوسری طرف کارکنان اور مقامی رہنما خودمختار سیاسی راستے اختیار کرنے میں مصروف ہیں۔یہ صورتحال حکمران جماعتوں کی دوہری سیاسی حکمت عملی کو بے نقاب کرتی ہے جہاں اتحاد بظاہر ایک مجبوری یا سیاسی مصلحت دکھائی دیتا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK