امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ان ممالک کی ایک بلیک لسٹ تیار کی جائے گی جن کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ناحق امریکیوں کو قید کرتے ہیں۔
EPAPER
Updated: September 06, 2025, 7:00 PM IST | Washington
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ان ممالک کی ایک بلیک لسٹ تیار کی جائے گی جن کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ناحق امریکیوں کو قید کرتے ہیں۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے ایک ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کیے ہیں جس کے تحت ان ممالک کی ایک بلیک لسٹ تیار کی جائے گی جن کے بارے میں واشنگٹن کا کہنا ہے کہ وہ ناحق امریکیوں کو قید کرتے ہیں۔ اس حکم نامے کے تحت ان ریاستوں پر پابندیاں اور سفری پابندیاں عائد کی جائیں گی جن پر ’’یرغمال سفارت کاری‘‘ (Hostage Diplomacy) میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔ یہ حکم نامہ محکمۂ خارجہ کو اختیار دیتا ہے کہ وہ بعض ممالک کو ’’غلط حراست کے ریاستی سرپرست‘‘ قرار دے، جس کا ماڈل دہشت گردی کے سرپرست ممالک کی فہرست پر ہے۔ اس کے تحت سزائیں دی جا سکتی ہیں جن میں پابندیاں، امریکی برآمدات پر قدغن اور ایسے حکام پر امریکہ میں داخلے کی ممانعت شامل ہے جو قید و بند میں ملوث ہوں۔
ٹرمپ کے معاون سباسٹین گورکا نے وائٹ ہاؤس میں کہا:’’آج آپ اس ایگزیکٹیو آرڈر پر دستخط کرکے یہ واضح کر رہے ہیں کہ امریکی شہری سودے بازی کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں ہوں گے۔ ‘‘اگرچہ فوری طور پر کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا، لیکن ایک سینئر عہدیدار نے کہا کہ چین، ایران اور افغانستان اس فہرست میں شامل ہونے کے لیے زیرِ غور ہیں کیونکہ یہ حکومتیں مسلسل ’’یرغمال سفارت کاری‘‘ میں ملوث رہتی ہیں۔ ایک غیر معمولی قدم کے طور پر اس ایگزیکٹیو آرڈر کے ذریعے امریکہ کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ وہ اپنے ہی شہریوں کو ان ممالک کا سفر کرنے سے روک سکے جو بلیک لسٹ میں شامل ہوں۔ اس سے قبل واشنگٹن نے صرف شمالی کوریا پر ایسی پابندی عائد کی تھی، جب 2017 میں امریکی طالب علم اوٹو وارمبئیر اپنی حراست کے دوران ہلاک ہوگیا تھا۔ سیہ بلیک لسٹ ان گروہوں پر بھی لاگو ہو سکتی ہے جو کسی علاقے پر قابض ہوں لیکن بطور ریاست تسلیم نہ کیے گئے ہوں۔
’’بوجھل عمل‘‘
ایک امریکی عہدیدار نے کہا کہ یہ حکم نامہ حکومت کے ردعمل کو آسان بنانے کے لیے تیار کیا گیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ’’اس سے بغیر کسی بوجھل عمل سے گزرے کارروائی کرنا آسان ہو جاتا ہے، ۔ ‘‘ساتھ ہی یہ بھی بتایا کہ اگر کوئی ملک بعد میں تعاون کرے تو اسے اس فہرست سے نکالا جا سکتا ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ غیر ملکی حراست میں موجود اپنے شہریوں کی رہائی کو اولین ترجیح دی ہے۔ ٹرمپ نے امریکیوں کی رہائی کے اپنے ریکارڈ کو اجاگر کیا ہے، اور حکام کا کہنا ہے کہ ان کی صدارت کے دوران ۷۲؍قیدی رہا کیے گئے۔ ماضی کی کوششوں میں روس اور دیگر حکومتوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے بھی شامل ہیں۔ محکمۂ خارجہ باقاعدگی سے یہ طے کرتا ہے کہ آیا کوئی حراست ’’غلط‘‘ ہے یا نہیں، خاص طور پر ان کیسز میں جہاں امریکی شہریوں کو سیاسی سودے بازی کے لیے جیل میں ڈالا گیا ہو۔ سابق صدر جو بائیڈن کے دور میں، چین نے ان امریکیوں کو رہا کیا جنہیں اس نے حراست میں رکھا تھا، ایک ایسے انتظام کے تحت جس میں واشنگٹن نے امریکی شہریوں کے لیے سفری انتباہات نرم کر دیے تھے، جنہیں بیجنگ نے اپنے کاروباری ماحول کے لیے نقصان دہ قرار دیا تھا۔