Updated: June 05, 2025, 5:06 PM IST
| Washington
ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت کی سفری پابندی کی پالیسی کو دوبارہ متعارف کراتے ہوئے بدھ کی رات ایک حکمنامہ پر دستخط کئے جس کے تحت، افغانستان، میانمار، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن سمیت ۱۲ ممالک کے شہریوں کو ریاستہائے متحدہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ۔ تصویر: آئی این این
امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے پہلے دورِ صدارت کی سفری پابندی کی پالیسی کو دوبارہ متعارف کراتے ہوئے بدھ کی رات ایک حکمنامہ پر دستخط کئے، جس کے تحت ۱۲ ممالک کے شہریوں کو ریاستہائے متحدہ میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ہے۔ ان ممالک میں افغانستان، میانمار، چاڈ، جمہوریہ کانگو، استوائی گنی، ایریٹریا، ہیٹی، ایران، لیبیا، صومالیہ، سوڈان اور یمن شامل ہیں۔ اس پابندی کے علاوہ، برونڈی، کیوبا، لاؤس، سیرا لیون، ٹوگو، ترکمانستان اور وینزویلا سے آنے والے افراد پر سخت پابندیاں عائد کی جائیں گی۔ یہ پابندیاں، ۹ جون یعنی پیر کو رات ۱۲:۰۱ بجے سے نافذ العمل ہوگی۔ یہ فہرست ۲۰ جنوری کو ٹرمپ کے جاری کردہ ایک سرکاری حکمنامہ کا نتیجہ ہے، جس میں محکمہ خارجہ، ہوم لینڈ سیکیورٹی اور ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ امریکہ کے تئیں "مخاصمانہ رویوں" اور بعض ممالک سے داخلے کے قومی سلامتی کے خطرات کے بارے میں ایک رپورٹ تیار کریں۔
یہ بھی پڑھئے: چین کے صدر کو پسند کرتا ہوں لیکن وہ بہت سخت ہیں، ان سے ڈیل کرنا مشکل ہے: ڈونالڈٹرمپ
ٹرمپ نے اپنے اعلان میں کہا کہ مجھے ریاستہائے متحدہ اور اس کے عوام کے قومی مفادات اور قومی سلامتی کے تحفظ کیلئے اقدام اٹھانا ہوگا۔ یاد رہے کہ اپنے پہلے دورِ صدارت میں، ٹرمپ نے جنوری ۲۰۱۷ء میں ایک حکمنامہ جاری کیا تھا جس کے تحت ۷ مسلم اکثریتی ممالک، عراق، شام، ایران، سوڈان، لیبیا، صومالیہ اور یمن کے شہریوں پر امریکہ میں داخلے اور سفر پر پابندی عائد کی گئی تھی۔ یہ ان کے ابتدائی صدارتی دور کے سب سے افراتفری اور الجھن بھرے لمحات میں سے ایک تھا۔ ان ممالک کے مسافروں کو یا تو امریکہ جانے والی پروازوں میں سوار ہونے سے روک دیا گیا یا امریکی ہوائی اڈوں پر پہنچنے کے بعد حراست میں لے لیا گیا تھا۔ ان میں طلبہ، اساتذہ، کاروباری افراد، سیاح اور اپنے دوستوں اور خاندان سے ملنے کیلئے آنے والے افراد شامل تھے۔ اس حکمنامہ، جسے اکثر "مسلم پابندی" کہا جاتا تھا، کو قانونی چیلنجوں کے بعد ترمیم کیا گیا، یہاں تک کہ ۲۰۱۸ء میں سپریم کورٹ نے اس کے ایک ورژن کو برقرار رکھا۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ: ٹرمپ، کانگریس میں ٹیکس بل کی جلد منظوری کیلئے کوشاں، مسک کی شدید تنقید، سینیٹ میں تنازع
اس پابندی نے ایران، صومالیہ، یمن، شام اور لیبیا سے آنے والے مختلف زمرے کے مسافروں اور تارکین وطن کے ساتھ ساتھ شمالی کوریا کے شہریوں اور وینزویلا کے کچھ سرکاری حکام اور ان کے خاندانوں کو بھی متاثر کیا تھا۔ ٹرمپ اور دیگر نے ابتدائی پابندی کا قومی سلامتی کے بنیادوں پر دفاع کیا اور دلیل دی تھی کہ اس کا مقصد ملک کا تحفظ تھا اور یہ مسلم مخالف تعصب پر مبنی نہیں تھا۔ تاہم، صدر نے اپنی پہلی صدارتی مہم کے دوران مسلمانوں پر واضح پابندی کا مطالبہ کیا تھا۔