Inquilab Logo

یواے ای کا پہلا وفد اسرائیل پہنچا، فلسطینیوں کی مخالفت کا سامنا

Updated: October 21, 2020, 10:46 AM IST | Agency | Tel Aviv

اسرائیلی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ کی جانب سے وفد کا پر تپاک خیر مقدم جبکہ فلسطینی سخت ناراض۔مسجد اقصیٰ میں عوام نے وفد کو باہر کا راستہ دکھایا ۔ اس دورے کو شرمناک اور معاہدے کو غداری قرار دیا۔ بیشتر تنظیموں کے مطابق اس دورے سےاس کے علاوہ کچھ نہیں ہوگا کہ اسرائیل کو فلسطینیوں پر مظالم ڈھانے اور ان کی زمینوں پر ناجائز قبضہ کرنے کا حوصلہ ملے گا

UAE Israel
اماراتی اور اسرائیلی حکام معاہدے پر دستخط کے بعد رونمائی کرتے ہوئے

متحدہ عرب امارات  ( یو اے ای)  اور اسرائیل کے درمیان ہوئے معاہدے  کے بعد یو اے ای  سے پہلی کمرشیل فلائٹ اسرائیل کی راجدھانی تل ابیب پہنچی۔   اس میں  امارات کے سیاحوں کا ایک وفد سوار تھا۔ اطلاع  کے مطابق اماراتی فضائی کمپنی اتحاد ایئرویز کی پرواز نمبر ۹۶۰۷؍دبئی سے ۸؍رکنی سیاحتی وفد کو لے کر اسرائیلی دارالحکومت تل ابیب کے ایئرپورٹ بین گوریون پہنچ گئی جہاں ان کا اسرائیلی حکام کی جانب سے پُرتپاک استقبال کیا گیا۔دریں اثناء اتحاد ایئر ویز کا بوئنگ طیارہ  ۷۸۷؍ ڈریم لائنر‘ منگل ہی کو  اسرائیلی وفد اور سیاحوں کو لے کر ابوظہبی ائیرپورٹ پہنچ گیا، یہ وفد ملکی دورے کے بعد۲۱؍ نومبر کو اسرائیل کے لئے دوبارہ روانہ ہو جائے گا۔اتحاد ایئر ویز کا کہنا ہے کہ وہ جلد دونوں ممالک کے درمیان عام شہریوں کیلئےبھی پروازوں کا آغاز کریں گے۔ دونوں ممالک کے درمیان ہفتے میں ۲۸؍ پروازوں کا امکان ہے۔ جس کیلئے عبرانی زبان میں ایک ویب سائٹ بھی لانچ کی جائے گی۔قبل ازیں ۲۳؍ ستمبر کو اسرائیل سے پہلی کمرشیل پرواز متحدہ عرب امارات پہنچی تھی جس میں اہم اسرائیلی حکام موجود تھے۔ 
  فلسطینیوں  لیڈران اور عوام کی جانب سے مخالفت 
  ایک طرف جہاں اس وفدکا اسرائیلیوں کی جانب سے استقبال کیا گیا وہیں  فلسطینی لیڈران اور عوام نے اس کی سخت مخالفت کی اور اس دورے کو شرمناک قرارد یا۔ فلسطینی جدوجہد میں اہم کردار ادا کرنے والی تنظیم  پیلاسٹائن لبریشن آرگنائزیشن ( پی ایل او) کی ایگزیکٹیو کمیٹی کے رکن واصل یوسف کا کہنا ہے کہ ’’ اسرائیل سے معاہدہ کرنے اور وفد کے یہاں آکر جانے سے اس کے علاوہ اور کچھ نہیں ہوگا کہ اسرائیل  کی جانب سے فلسطینیوں پر جاری مظالم  کو بڑھاوا ملے اور فلسطینی علاقوں پر ناجائز قبضے کے تعلق سے اسرائیل کی حوصلہ افزائی ہوگی۔ مغربی کنارے کے رام اللہ شہر میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے واصل یوسف نے کہا کہ اس (دورے) کا نتیجہ صرف یہ ہوگا کہ اسرائیل کے ناجائز قبضوں میں اضافہ ہو جائے گا۔ 
  ادھر حماس کے  ترجمان حزیم قاسم نے غزہ میں دئیے گئے  بیان میں بھی ٹھیک یہی بات کہی ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ ’’ اس دورے سے صرف اسرائیل کے بتدریج جاری ناجائز قبضوں کی حوصلہ افزائی ہوگی اور کچھ نہیں ہوگا۔ ‘‘  جہاں تک بات ہے فلسطینی عوا م کی تو سوشل میڈیا پر لوگ اس دورے کی سخت مذمت کر رہے ہیں  اور اسے فلسطینیوں سے غداری  قرار دے رہے ہیں۔ زیادہ تر لوگوں  کا کہنا ہے کہ’’ فلسطینیوں کو ان کی سرزمین پر آزادانہ طور پر گھومنے کی اجازت نہیں ہے، کوئی ۶۰؍ لاکھ پناہ گزینوں کو  ان کے اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں ہے  اور اسرائیلی حکومت  متحدہ عرب امارات کے وفد کو بلاکر یہاں کا دورہ کروا رہی ہے۔‘‘ 
   وفد کو مسجد اقصیٰ سے باہر کا راستہ دکھایا گیا   
  اطلاع ملی ہے کہ متحدہ عرب امارات کا یہ وفد اسرائیلی پولیس کی سخت سیکوریٹی میں  مقبوضہ یروشلم بھی گیا تھا جہاں اس نے مسجد اقصیٰ کی زیارت کی لیکن وہاں موجود فلسطینیوں نے نعرے لگا کر ان کی مخالفت کی اور انہیں وہاں سے باہر نکلنے پر مجبور کر دیا۔ ایک نیوز ایجنسی نے فلسطینیوں کے  فیس بک پر  وادی الحِلوہ انفارمیشن  نامی پیج پر جاری کردہ ویڈیو کے حوالے سے یہ خبر دی ہے۔  ویڈیو میں دکھایا گیا ہے کہ فلسطینی شہری متحدہ عرب امارات کے وفد سے اسرائیل سے ہوئے معاہدے پرسخت  سوالات کررہے ہیں اور انہیں مسجد اقصی سے نکل جانے کیلئے کہہ رہے ہیں۔ جس کے بعد وفد کو وہاں سے نکل جانا پڑا۔
 اسرائیل ۔ امارات معاہدے پر مہر 
  ادھر متحدہ عرب امارات کی وزارتی کونسل نےاسرائیل کے ساتھ سفارتی  تعلقات استوار کرنے کیلئے طے شدہ’ معاہدۂ ابراہیم‘کو  منظوری دے دی ہے۔اماراتی حکومت کے ایک بیان کے مطابق ’’شیخ محمد بن راشد کے زیر صدارت وزارتی کونسل نے معاہدۂ ابراہیم کی توثیق کیلئے قرارداد منظور کر لی ہے اور اس معاہدے کی توثیق کیلئے وفاقی فرمان کے اجرا کی غرض سے آئینی طریقۂ کار شروع کرنے کا حکم دیا ہے۔‘‘کابینہ نے امن معاہدے کے بارے میں اپنے اس اعتماد کا اظہار کیا ہے کہ اس سے نہ صرف دونوں ملکوں کے درمیان طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے میں مدد ملے گی بلکہ خطے میں امن اور استحکام کے لئے بھی پیش رفت ہوگی۔
  واضح رہے کہ یواے ای نے گزشتہ۱۳؍اگست کو اسرائیل کے ساتھ  سفارتی تعلقات استوار کرنے کیلئےایک  معاہدے کا اعلان کیا تھا اور پھر اس کی روشنی میں ۲۹؍گست کو ایک فرمان جاری کیا تھا ،جس کے تحت اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ سے متعلق یو اے ای کے قانون کو منسوخ کردیا گیا تھا۔ اس معاہدے سے مسلم عوام خاص کر فلسطینی باشندے سخت ناراض ہیں جو کئی دہائیوں سے اسرائیلی مظالم کا شکار ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK