یوگنڈا کے کمپالا میں پیدا ہونیوالے ممدانی کے نیویارک شہر کا میئر بننے پر لوگوں نے مسرت کا اظہار کیا اور کہا کہ ان کی فتح ملکی لیڈران کیلئے بھی سبق و ترغیب ثابت ہوگی۔
الیکشن میں کامیابی کے بعد ظہران ممدانی اپنی والدہ میرا نائر، اہلیہ رامادواجی اور والد محمود مدانی کےساتھ دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این
نیویارک میئر الیکشن میں ظہران ممدانی کی فتح پر عالمی سطح پر مسرت کا اظہار کیا جارہاہے۔ بالخصوص ان کی جائے پیدائش کمپالا، یوگنڈا میں اس خبر نے مسرت کی لہر دوڑادی ہے۔گارجین کی رپورٹ کے مطابق یوگنڈا کے عوام نےممدانی کی جیت کو جمہوری جدوجہد کیلئے ’’امید کی کرن‘‘ قرار دیا ہے۔ کیونکہ یہ امید افزاء خبر ایسے وقت میں آئی ہے جب مشرقی افریقہ میں جمہوریت اور انسانی حقوق کے حوالے سے صورتِ حال نازک ہے۔خیال رہے کہ ممدانی، جو۳۴؍ سال قبل یوگنڈا میں ایک ہندوستانی نژاد خاندان میں پیدا ہوئے، نے منگل کو سابق گورنر اینڈریو کومو اور ریپبلکن امیدوار کرٹس سلِوا کو شکست دے کر نیویارک شہر کے پہلے مسلمان اور جنوبی ایشیائی نژاد میئر بننے کا اعزاز حاصل کیا ہے۔ ممدانی ۷؍سال کی عمر سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ عمر کی بیسویں بہار میں انہوں نے’ینگ کارڈامم‘‘ کے نام سے یوگنڈا کے ریپرایچ اے بی کے ساتھ موسیقی بھی بنائی تھی۔قابل ذکر ہے کہ یوگنڈا میں بہت سے لوگوں نے ممدانی کا نام پہلی بار ان کی جیت کے بعد سنا، یا یہ جانا کہ ایک یوگنڈا نژاد شخص نیویارک سٹی کا سب سے کم عمر میئر بن گیا ہے۔
کمپالا کی میکریری یونیورسٹی میں جہاں ظہران ممدانی کے والدمحمود ممدانی چند سال پہلے تک پڑھاتے رہے ہیں، جب وہاں یہ خبر پہنچی تو جوش و فخر کی لہر دوڑ گئی۔ یونیورسٹی میں نفسیات کے طالب علم انتھونی کیرابو نے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا کہ ’’ظہران کو وہاں دیکھ کر لگتا ہے کہ میں بھی کچھ کر سکتا ہوں۔‘‘۲۲؍سالہ انتھونی نے پرمسرت لہجے میں کہا کہ’’یہ مجھے اچھا اور اپنے ملک پر فخر محسوس کراتا ہے کیونکہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ یوگنڈا بھی اچھے لیڈر پیدا کر سکتا ہے۔‘‘انتھونی نے امید ظاہر کی کہ ممدانی کے سبب یوگنڈا ذرائع ابلاغ میں موضوع بحث بنا، اس سے مشرقی افریقہ کے اس ملک میں مزید سیاح آئیں گے۔
دھیان رہے کہ ممدانی کی کامیابی ایسےوقت سامنے آئی ہے جب مشرقی افریقہ میں جمہوریت مشکلات کا شکار ہے۔ مبصرین کے مطابق خطے کے بعض ممالک میں جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں بڑھ رہی ہیں۔ یوگنڈا کا پڑوسی ملک تنزانیہ حالیہ ہفتے میں خونی انتخابی تشدد سے لرز اٹھا، جس میں سینکڑوں افراد مارے گئے۔ مظاہرین کا کہنا تھا کہ حکومت نے اپوزیشن کو دبانے کیلئے صدارتی انتخابی فہرست سے اہم امیدواروں کو نکال دیا۔ یوگنڈا کے بہت سے شہریوں کو امید ہے کہ ممدانی کی فتح ان کے اپنے لیڈروں کیلئے سبق ثابت ہوگی، خاص طور پر اس وقت جب یوگنڈا آئندہ جنوری میں عام انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ صدر یویری موسیوینی، جو۳۹؍ سال سے اقتدار میں ہیں، ساتویں مدت کیلئے اپنی گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ۲۸؍ سالہ جوزف سینداگیرے، جو پرچیزنگ افسر ہیں، نے اے ایف پی سے کہا کہ وہ چاہتے ہیں یوگنڈا ، نیویارک سٹی کے میئر کے انتخاب سے سبق سیکھے۔کہا کہ ’’یوگنڈا کو آزاد اور منصفانہ انتخابات کا کلچر اپنانا چاہیے، امیدواروں کو منصفانہ مقابلہ کرنے دینا چاہیے، سب کے ساتھ یکساں سلوک ہونا چاہیے، اور آخر میں بہترین امیدوار جیتے۔‘‘ ریٹائرڈ میڈیا ایگزیکٹو رابرٹ کابوشینگا، جو ممدانی خاندان کے دوست ہیں، نے اے پی سے گفتگو میں کہا کہ ’’یہ جیت یوگنڈا کے دبے کچلے کارکنوں کے لیے امید کی کرن ہے۔‘‘انہوں نے مزید کہا، ’’سبق یہ ہے کہ ہمیں نوجوانوں کو موقع دینا چاہیے کہ وہ سیاست کو بامعنی انداز میں تشکیل دیں اور اس میں حصہ لیں۔‘‘ صدر موسیوینی کے اہم حریف بوبی وائن نے ممدانی کو دلی مبارکباد پیش کی، ایکس پیغام میں انہوں نے کہا کہ ’’یوگنڈا سے ہم آپ کی مثال سے طاقت حاصل کرتے ہیں اور اس دن کیلئے کام کرتے ہیں جب ہمارے ملک کا ہر شہری اپنے خوابوں کو پورا کر سکے، چاہے اس کے پاس وسائل ہوں یا نہ ہوں۔‘‘ یوگنڈا کی پارلیمنٹ میں حزبِ مخالف کے لیڈر جوئل سینیونی نے اے پی کو بتایا کہ ممدانی کی فتح ایک حوصلہ افزا سیاسی تبدیلی ہے، لیکن بہت سے افریقیوں کے لیے اب بھی یہ خواب کچھ دور لگتا ہے۔انہوں نے کہاکہ یہ ہمارے لئے یوگنڈا میں بھی بڑی حوصلہ افزائی ہے کہ یہ ممکن ہے، لیکن وہاں پہنچنے کے لیے ہمیں ابھی لمبا سفر طے کرنا ہے۔‘‘
ممدانی کی اہلیہ راما دواجی نیویارک کی پہلی سب کم عمر خاتون اوّل !
نو منتخب میئر ظہران ممدانی کی شامی نژاد اہلیہ راما دواجی نیویارک کی کم عمر ترین ’فرسٹ لیڈی‘ بن گئی ہیں۔ ۲۸؍ سالہ راما دواجی ایک باصلاحیت امریکی آرٹسٹ ہیں، جن کا تعلق شامی نژاد خاندان سے ہے، وہ ٹیکساس میں پلی بڑھیں، دبئی میں تعلیم حاصل کی اور صرف چار برس قبل نیویارک منتقل ہوئیں۔ اگرچہ ظہران ممدانی کی انتخابی مہم کے دوران راما دواجی عوامی تقریبات، مباحثوں اور انتخابی جلسوں سے دور رہیں لیکن لیکن ظہران ممدانی کی مہم کیلئے ان کا کردار نہایت اہم رہا۔ انہوں نے مہم کی بصری شناخت، انتخابی پوسٹرز اور لوگوز اور زرد، مہم میں استعمال کیے جانے والے نارنجی اور نیلے رنگ کے امتزاج پر مبنی ڈیزائن خود تیار کیے۔ راما دواجی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس زیادہ تر ان کے فن پاروں کے لئے مختص ہیں، جن میں فلسطینی حقوق کیلئے تخلیقی اظہار بھی شامل ہے۔ ان کی کم عمری، فنی صلاحیت اور سماجی شعور نے انہیں نیویارک کی ایک منفرد اور بااثر خاتونِ اول کے طور پر متعارف کرایا ہے۔