Updated: December 19, 2025, 9:53 PM IST
| London
سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں گزشتہ ایک سال کے دوران دہشت گردی سے متعلق جرائم میں گرفتاریوں کی تعداد میں ۶۶۰؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ اضافہ بڑی حد تک فلسطین ایکشن پر جولائی میں عائد کی گئی پابندی کے بعد سامنے آیا۔ ستمبر ۲۰۲۵ء کے اختتام تک ۱۸۸۶؍ افراد گرفتار کئے گئے، جن میں سے ۸۶؍ فیصد کا تعلق فلسطین ایکشن سے بتایا گیا ہے۔
لندن میں غزہ حامی مظاہرہ کا ایک منظر۔ تصویر: ایکس
برطانوی حکومت کے تازہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق ملک میں دہشت گردی سے متعلق جرائم کے تحت ہونے والی گرفتاریوں میں گزشتہ سال کے دوران غیر معمولی اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ یہ اضافہ چھ گنا سے بھی زیادہ ہے، جس کی بنیادی وجہ جولائی ۲۰۲۵ء میں فلسطین ایکشن کو کالعدم دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں شامل کیا جانا بتایا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ستمبر ۲۰۲۵ء کے اختتام تک دہشت گردی سے متعلق سرگرمیوں کے الزام میں مجموعی طور پر ۱۸۸۶؍ افراد کو گرفتار کیا گیا جبکہ اس سے پچھلے سال یہ تعداد صرف ۲۴۸؍ تھی۔ یوں مجموعی طور پر تقریباً ۶۶۰؍ فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جو حالیہ برسوں میں اپنی نوعیت کا سب سے بڑا اضافہ سمجھا جا رہا ہے۔ رپورٹ کے مطابق گرفتار ہونے والوں میں سے ۱۶۳۰؍ افراد، یعنی تقریباً ۸۶؍ فیصد، کا تعلق فلسطین ایکشن سے تھا۔ واضح رہے کہ فلسطین ایکشن کو جولائی ۲۰۲۵ء میں برطانیہ کی جانب سے کالعدم دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد گروپ سے وابستگی، اس کی حمایت یا اس کی تشہیر کو فوجداری جرم بنا دیا گیا، جس کے تحت ۱۴؍ سال تک قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔ اسی طرح گروپ سے منسلک لباس پہننے یا اس کے نام یا علامات کی نمائش پر چھ ماہ تک قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: یو این نے سابق عراقی صدر برہم صالح کو نیا ہائی کمشنر برائے مہاجرین منتخب کیا
فلسطین ایکشن کے شریک بانی ہدیٰ عموری نے اس فیصلے کے خلاف ہوم آفس کے خلاف قانونی کارروائی شروع کررکھی ہے، جس میں پابندی کو چیلنج کیا جا رہا ہے۔ اعداد و شمار مزید ظاہر کرتے ہیں کہ پابندی کے نفاذ کے بعد جولائی سے ستمبر ۲۰۲۵ء کے درمیان صرف تین ماہ میں ۱۷۰۶؍ گرفتاریاں ہوئیں۔ یہ تعداد اپریل سے جون ۲۰۲۵ء کی سہ ماہی کے مقابلے ۲۶۰۸؍ فیصد زیادہ ہے، جب دہشت گردی سے متعلق صرف ۶۳؍ گرفتاریاں ریکارڈ کی گئی تھیں۔ اس حالیہ سہ ماہی میں ہونے والی ۱۷۰۶؍ گرفتاریوں میں سے ۱۶۳۰؍ کا تعلق فلسطین ایکشن کی حمایت سے جوڑا گیا ہے۔پورے سال کے دوران دہشت گردی سے متعلق باقی ۲۵۶؍ گرفتاریاں، جن کا تعلق فلسطین ایکشن سے نہیں تھا، گزشتہ سال کے مقابلے میں صرف ۳؍ فیصد اضافہ ظاہر کرتی ہیں۔ ان میں سے ۷۶؍گرفتاریاں جولائی اور ستمبر کے درمیان ہوئیں، جو گزشتہ سہ ماہی کے مقابلے میں ۲۱؍ فیصد زیادہ ہیں۔
اعداد و شمار میں بچوں کی گرفتاریوں میں بھی اضافہ سامنے آیا ہے۔ سال بھر میں ۱۷؍ سال یا اس سے کم عمر کے ۵۳؍ بچوں کو گرفتار کیا گیا، جو کہ غیر فلسطین ایکشن گرفتاریوں کی مجموعی تعداد کا تقریباً ۲۰؍ فیصد ہیں۔ تاہم ان میں سے صرف ایک معمولی گرفتاری کا تعلق کسی کالعدم گروہ سے بتایا گیا ہے۔ قانونی نتائج کے حوالے سے، مجموعی طور پر ۳۱۹؍ گرفتاریاں، یعنی ۱۷؍ فیصد، باقاعدہ الزامات پر منتج ہوئیں۔ ان میں ۲۴۳؍ معاملات فلسطین ایکشن سے منسلک تھے۔ اس کے برعکس پچھلے سال دہشت گردی سے متعلق ۴۷؍ فیصد گرفتاریوں میں الزامات عائد کئے گئے تھے، جو اس سال کے مقابلے میں کہیں زیادہ شرح تھی۔ اعداد و شمار ایک نمایاں آبادیاتی تبدیلی کی بھی نشاندہی کرتے ہیں۔ فلسطین ایکشن سے متعلق گرفتار ہونے والوں میں خواتین کے شامل ہونے کا امکان دیگر دہشت گردی معاملات کے مقابلے میں ۴ء۴؍ گنا زیادہ ہے۔ ان افراد کی اوسط عمر ۵۷؍ سال ریکارڈ کی گئی جبکہ دیگر دہشت گردی سے متعلق گرفتاریوں میں اوسط عمر ۳۰؍ سال ہے۔
یہ بھی پڑھئے: اہل غزہ موسم کی سختیوں کی زد میں، بیماریوں کے پھیلاؤ کا اندیشہ
یہ اعداد و شمار سال کے آخری تین مہینوں پر مشتمل نہیں ہیں، جن کے دوران مزید احتجاج اور بڑے پیمانے پر گرفتاریاں ہونے کی اطلاعات سامنے آئیں۔ نومبر ۲۰۲۵ء میں برطانیہ کے انسداد دہشت گردی فریم ورک کے ایک تاریخی اور آزاد جائزے میں خبردار کیا گیا تھا کہ فلسطین ایکشن پر پابندی کیلئے استعمال کئے گئے قوانین کا اطلاق بہت وسیع پیمانے پر کیا جا رہا ہے۔ جائزے میں یہ بھی کہا گیا کہ حکومت کا مرکزی اینٹی ریڈیکلائزیشن پروگرام اپنے مقاصد کیلئے موزوں نہیں رہا۔ برطانیہ کے انسداد دہشت گردی کے قانون، پالیسی اور عمل سے متعلق آزاد کمیشن، جس کی قیادت سابق جج سر ڈیکلن مورگن کر رہے ہیں اور جس میں ۱۴؍ کمشنرز شامل تھے، نے اپنی تین سالہ انکوائری میں اس خدشے کا اظہار کیا کہ دہشت گردی کی قانونی تعریف میں غیر یقینی صورتحال پائی جاتی ہے اور اس کے اطلاق میں حد سے تجاوز کا خطرہ موجود ہے۔