فلسطینی ایکشن کے ترجمان نے اس پیش رفت پر اپنے ردعمل نے کہا کہ سرخ پینٹ چھڑکنا اور اسرائیل کی سب سے بڑی ہتھیاروں کی فرم، ایلبٹ سسٹمز کی برطانوی شاخ کے افعال میں خلل ڈالنا دہشت گردی نہیں ہے۔
EPAPER
Updated: July 03, 2025, 9:54 PM IST | London
فلسطینی ایکشن کے ترجمان نے اس پیش رفت پر اپنے ردعمل نے کہا کہ سرخ پینٹ چھڑکنا اور اسرائیل کی سب سے بڑی ہتھیاروں کی فرم، ایلبٹ سسٹمز کی برطانوی شاخ کے افعال میں خلل ڈالنا دہشت گردی نہیں ہے۔
برطانوی قانون سازوں نے فلسطین حامی کارکنوں کی تنظیم "فلسطین ایکشن" کو "دہشت گرد تنظیم" قرار دینے کے حق میں ووٹ دیا ہے۔ اس ہفتے کے شروع میں داخلہ سیکریٹری ایویٹ کوپر نے "دہشت گردی ایکٹ ۲۰۰۰ء" میں ترمیم اور "فلسطین ایکشن" سمیت تین تنظیموں پر پابندی لگانے کے حکم کے مسودے کو پیش کیا تھا جسے بدھ کو ہاؤس آف کامنز میں ۳۸۵ کے مقابلے ۲۶ ووٹوں سے منظور کرلیا گیا۔ اس حکم میں دو نیو-نازی گروپس، مینیاکس مرڈر کلٹ (ایم ایم سی) اور روسی امپیریل موومنٹ (آر آئی ایم) پر بھی پابندی عائد کی گئی ہے۔
منگل کو حکومت نے اعلان کیا تھا کہ ماہرین کے مشورے کے بعد فلسطین ایکشن پر پابندی لگائی جا رہی ہے۔ بدھ کو ہونے والی ووٹنگ کے دوران، دفتر داخلہ کے وزیر ڈین جارویس نے کہا کہ اس اقدام کے ذریعے ہم فلسطین ایکشن کی قانونی حیثیت کو ختم کردیں گے، اس کی مالی معاونت سے نمٹیں گے اور اپنے نام پر "دہشت گردانہ سرگرمیوں کا ارتکاب" کرنے کیلئے لوگوں کو بھرتی کرنے اور بنیاد پرست بنانے کی اس کی کوششوں کو کمزور کریں گے۔
یہ بھی پڑھئے: ۳۰۰؍ سے زائد صحافیوں کا بی بی سی کو اسرائیل حامی موقف اپنانے پر کھلا خط
ہاؤس آف کامنز میں منظور ہونے کے بعد اب یہ حکم ہاؤس آف لارڈز میں جائے گا اور وہاں سے حتمی منظوری چند دنوں میں آنے کی توقع ہے، جہاں اس کی منظوری کی صورت میں ان گروپوں میں سے کسی ایک کا رکن ہونا یا ان کی حمایت کی دعوت دینا یا لاپرواہی سے اظہار کرنا ایک مجرمانہ جرم بن جائے گا اور گروپوں سے تعلق رکھنا یا ان کی حمایت کرنا، ۱۴ سال تک قید کی سزا کے ساتھ قابلِ سزا جرم سمجھا جائے گا۔
فلسطینی ایکشن کا ردعمل
ووٹ کے بعد، فلسطینی ایکشن کے ترجمان نے کہا کہ ہمیں یقین ہے کہ اس غیر قانونی حکم کو کالعدم قرار دیا جائے گا۔ جیسا کہ اقوام متحدہ کے ماہرین نے واضح کیا ہے، سرخ پینٹ چھڑکنا اور اسرائیل کی سب سے بڑی ہتھیاروں کی فرم، ایلبٹ سسٹمز کی برطانوی شاخ کے افعال میں خلل ڈالنا دہشت گردی نہیں ہے۔
یہ بھی پڑھئے: برطانیہ: قانون سازوں کا یوکرین کی طرز پر ’’غزہ فیملی اسکیم‘‘ کا مطالبہ
واضح رہے کہ حکومت کی جانب سے گروپ پر پابندی لگانے کے منصوبے کے اعلان کے بعد سے متعدد سیاست دانوں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے تشویش کا اظہار کیا ہے۔ حال ہی میں، ۴۰۰ سے زیادہ شخصیات کے ایک گروپ نے برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ فلسطینی ایکشن پر پابندی لگانے کے اپنے ارادے سے پیچھے ہٹے اور "اسرائیل کو مسلح کرنا بند کرے۔" اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین نے بھی منگل کو برطانوی حکومت پر زور دیا کہ وہ "دہشت گردی ایکٹ ۲۰۰۰ء" کے تحت فلسطین ایکشن کو "دہشت گرد تنظیم" کے طور پر درجہ بند کرنے کا اپنا منصوبہ ترک کر دے۔ ماہرین نے خبردار کرتے ہوئے کہا کہ ایسا اقدام اٹھانا بین الاقوامی معیارات کی خلاف ورزی ہوگی اور جائز اختلاف کو دبانے کے مترادف ہوگا۔