برطانیہ کے ۳۰۰؍ سے زائد صحافیوں اور فنکاروں نے بی بی سی کو اسرائیل حامی موقف اپنانے پر کھلا خط لکھ کر مذمت کی ہے۔ ان میں ۱۱۱؍ کا تعلق بی بی سی ہے۔
EPAPER
Updated: July 03, 2025, 4:11 PM IST | London
برطانیہ کے ۳۰۰؍ سے زائد صحافیوں اور فنکاروں نے بی بی سی کو اسرائیل حامی موقف اپنانے پر کھلا خط لکھ کر مذمت کی ہے۔ ان میں ۱۱۱؍ کا تعلق بی بی سی ہے۔
بی بی سی کے ۱۰۰؍ سے زائد موجودہ عملے سمیت میڈیا صنعت کے سیکڑوں پیشہ ور افراد نے ایک کھلے خط پر دستخط کئے ہیں جس میں براڈکاسٹر پر ’’اسرائیلی حکومت کیلئے پی آر‘‘ کے طور پر کام کرنے کا الزام لگایا گیا ہے اور مفادات کے مبینہ ٹکراؤ پر بی بی سی بورڈ کے رکن سر روبی گِب کو ہٹانے کا مطالبہ کیا ہے۔ بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور براڈکاسٹر کے بورڈ کو بھیجا گیا یہ خط کئی تنازعات کے بعد ہے – جس میں بی بی سی کا گلاسٹن بری میں پنک ریپ جوڑی باب وائلن کے اسرائیل مخالف نعروں کی براہ راست نشریات، اور غزہ پر کمیشنڈ دستاویزی فلم بنانے کا فیصلہ شامل ہے۔ خط میں کہا گیا ہے کہ ’’اکثر ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بی بی سی اسرائیلی حکومت اور فوج کیلئے پی آر کر رہا ہے۔ یہ بی بی سی میں موجود ہر ایک کیلئے انتہائی شرم اور تشویش کا باعث ہونا چاہئے۔‘‘
دستخط کنندگان میں اداکارہ مریم مارگولیس، فلمساز مائیک لی، اداکار چارلس ڈانس، اور مورخ ولیم ڈیلریمپل بھی شامل ہیں، ان کا دعویٰ ہے کہ غزہ کا بی بی سی کی کوریج اس کے ادارتی معیارات پر پورا نہیں اترتا اور زمینی حقیقت کی عکاسی کرنے میں ناکام ہے۔ اس خط میں بی بی سی کے ’’غزہ: ڈاکٹرز انڈر اٹیک‘‘ کی نشریات سے دستبرداری کے فیصلے پر بھی تشویش کا اظہار کیا گیا ہے، ایک دستاویزی فلم جسے بنانا بی بی سی ہی نے شروع کیا تھا اور اب اسے چینل ۴؍ کے ذریعے نشر کیا جائے گا۔ بی بی سی نے کہا کہ اس نے فلم اس لئے نشر نہیں کی کہ اس سے ’’جانبداری کا تاثر پیدا ہونے کا خطرہ تھا۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:غزہ میں بھوک سے عوام سڑکوں پر بے ہوش ہورہے ہیں: اُنروا
خط میں کہا گیا کہ ’’یہ ایک سیاسی فیصلہ معلوم ہوتا ہے اور یہ فلم میں صحافت کی عکاسی نہیں کرتا۔ یہ واضح کرتا ہے کہ بی بی سی ایک ایسی تنظیم ہے جو اسرائیلی حکومت کی تنقید سے گھبراتی ہے۔ ‘‘ خط میں زیادہ تر تنقید گِب پر مرکوز ہے، جو بی بی سی کی ویسٹ منسٹر سیاسی ٹیم کے سابق سربراہ اور وزیر اعظم تھریسا مے کے سابق اسپن ڈاکٹر ہیں۔ خط میں بی بی سی بورڈ پر ان کی پوزیشن کو بیان کیا گیا ہے، بشمول ادارتی معیارات کمیٹی میں۔ان پر دہرے معیار کا الزام ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ ’’ایک تنظیم کے طور پر ہم نے فلسطینیوں کے خلاف جنگ میں برطانوی حکومت کی شمولیت کے بارے میں کوئی اہم تجزیہ پیش نہیں کیا ہے۔ ہم ہتھیاروں کی فروخت یا ان کے قانونی مضمرات کے بارے میں رپورٹ کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یہ کہانیاں بی بی سی کے حریفوں نے منظر عام پر لائی ہیں۔کچھ واقعات میں عملے پر ایک ایجنڈا رکھنے کا الزام لگایا گیا ہے کیونکہ انہوں نے اپنے سوشل میڈیا پر اسرائیلی حکومت کے خلاف تنقیدی خبریں پوسٹ کی ہیں۔ مقابلے کے لحاظ سے، گِب اپنے نظریاتی جھکاؤ کے مشہور ہونے کے باوجود اپنے فیصلوں کے حوالے سے بہت کم شفافیت کے ساتھ ایک بااثر عہدے پر برقرار ہیں۔ ہم گِب کی نظریاتی وفاداریوں کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔‘‘
یہ بھی پڑھئے:ظہران ممدانی نے تارکین وطن پر کارروائی سے روکا تو انہیں گرفتار کر لیا جائے گا: ٹرمپ
اس ضمن میں بی بی سی کے ترجمان نے کہا کہ ’’ہماری صحافت کے بارے میں ہماری ادارتی ٹیموں کے درمیان مضبوط گفتگو ادارتی عمل کا ایک لازمی حصہ ہے۔ ہم نے کوریج کے بارے میں مسلسل بات چیت کی ہے اور عملے کی رائے سنتے ہیں اور ہمارے خیال میں یہ بات چیت اندرونی طور پر بہترین ہے۔ غزہ کے ہمارے کوریج کے حوالے سے، بی بی سی تنازع کو غیر جانبداری سے کور کرنے کیلئے پوری طرح پرعزم ہے اور اس نے علاقے سے طاقتور کوریج فراہم کیا ہے۔ بریکنگ نیوز، جاری تجزیہ اور تحقیقات کے علاوہ، بی بی سی نے ایوارڈ یافتہ دستاویزی فلمیں تیار کی ہیں جیسے ’’غزہ میں زندگی اور موت‘‘ اور ’’غزہ ۱۰۱۔‘‘