• Sat, 07 December, 2024
  • EPAPER

Inquilab Logo

اسرائیلی فوج میں الٹرا آرتھوڈوکس طلباء کی بھرتی کیلئے قانون سازی کی کوشش تیز

Updated: June 11, 2024, 8:22 PM IST | Telaviv

اسرائیل کی پارلیمنٹ میں الٹرا آرتھوڈوکس مذہبی طلباء کی فوج میں شمولیت کیلئے قانون سازی تیز ہوگئی ہے۔ اسرائیلیوں کا کہنا ہے کہ ان کٹر مذہبی یہودیوں نے خود کو مذہب کی آڑ میں فوجی خدمات سے مبراء کیا ہواہے۔ دوسری جانب غزہ میں یرغمالوں کے اہل خانہ حکومت پر ان کی رہائی کیلئے ہر ممکن اقدام کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

A scene of mass protests in Israel. Photo: INN
اسرائیل میں عوامی احتجاج کا ایک منظر۔ تصویر : آئی این این

اسرائیل کی پارلیمنٹ نے الٹرا آرتھوڈوکس مذہبی طلباء کو فوج میں بھرتی کرنے کے بارے میں قانون سازی کی کوشش شروع کر دی ہے جس کی وجہ یہ ہے کنیسیٹ میں بھی ناراضگی پائی جا رہی ہےاسی دوران غزہ کے یرغمالیوں کے اہل خانہ نے انہیں آزاد کرانےکیلئے مزید اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔غزہ جنگ کے تزویراتی اہداف پر تنازعہ میںمرکزی کردار سابق جنرل بینی گانٹز کے حکومت سے دستبردار ہونے کے ایک دن بعد وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو اب اپنے انتہا پسند اتحادیوں پر تیزی سے انحصار کر رہے ہیں۔ فوج بھرتی بل، جس میں رات گئے ووٹنگ کے بعد مزید مطالعہ اور کمیٹی کے ذریعے پاس کرنا ضروری ہے،یہ قانون کچھ انتہائی قدامت پسند یہودیوں کی فوج میں بتدریج داخلےکو یقینی بنائے گا، جنہوں نےخود کو روایتی طور پر مسلح افواج میں خدمات انجام دینے سے باز رکھا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: غزہ جنگ: حماس نے اقوام متحدہ کی قرارداد قبول کرلی، تفصیلات پر گفتگو کیلئے تیار

یہ اس وقت سامنے آیا ہے جب یو این ایس سی میں جنگ بندی کی قرارداد کو بھاری اکثریت سے منظور کیا گیا تھا، لیکن اسرائیلی قانون سازوں کی جانب سے فوج بھرتی کے متنازع قانون پر زور دینا غزہ میں جنگ کو ختم کرنے کے اسرائیل کے ارادوں کے بارے میں شکوک و شبہات کو جنم دیتا ہے۔اگرچہ اصل میں یہ قانون  ۲۰۲۲ءمیں گزشتہ حکومت کے تحت پیش کیا گیا تھا، لیکن اب وہ اس اقدام کی مخالفت کررہے ہیں، جو ان کے بقول فوج کو درپیش نئے اہلکاروں کے مطالبات کیلئے ناکافی ہے۔ وزیر دفاع یوو گیلنٹ، سابق جرنیلوں کے ایک گروپ میں سے آخری، گانٹز اور ان کے اتحادی، سابق آرمی چیف گیڈی آئزن کوٹ کی رخصتی کے بعداپنے موقف کو تبدیل کرکے بل کے خلاف ووٹ دیا۔ اس کے برعکس، اتحاد میں شامل مذہبی جماعتوں نے، جنہوں نے بھرتی کی عمومی توسیع کی سختی سے مخالفت کی ہے، نظرثانی کے مقصد سے، ان کی حمایت کی۔
اگرچہ یہ تجویز فوج میں زیادہ الٹرا آرتھوڈوکس کی شمولیت سے متعلق ہے، لیکن ان کی تعداد کو محدود کیا جائے گا اور یہ بل فوجی خدمات کے لیے کچھ متبادلات کی اجازت دے گا۔الٹرا آرتھوڈوکس مردوں کو فوج میں بھرتی کرنے پر عائد پابندیوں میں سے کچھ کو ہٹانے کا معاملہ کئی دہائیوں سے ایک ایسے ملک میں ایک تفرقہ انگیز مسئلہ رہا ہے جہاںلازمی فوجی خدمات کا رواج ہے۔بہت سے سیکولر اسرائیلیوں کیلئے غزہ میں جنگ کے آغاز کے بعد سے یہ معاملہ پہلے سے کہیں زیادہ حساس رہا ہے، جس میں ۶۰۰؍سے زیادہ اسرائیلی فوجی مارے جا چکے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: سعودی حکومت کی کوششوں کے سبب حج کے دوران گرمی سے ہونے والی اموات میں زبردست کمی

اسرائیل ڈیموکریسی انسٹی ٹیوٹ میں سیاسی اصلاحات کے پروگرام کے سربراہ اسف شاپیرا نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایاکہ"ایسے لوگ ہیں جو اس وقت اس کی حمایت کرتے تھے اور اب اس کی مخالفت کررہے ہیں کیونکہ وہ اسے اسرائیل کیلئے غلط سمجھتے ہیں، اور کچھ ایسے بھی ہیں جو اس وقت اس کی مخالفت کررہے تھے اور اب اس کی حمایت کریں گے کیونکہ وہ اسے قانون کو تبدیل کرنے کے موقع کے طور پردیکھ رہے ہیں۔"جیسے ہی پارلیمنٹ نے بل پر ووٹ ڈالنے کی تیاری کی، فنانس کمیٹی کے اجلاس میںتلخ کلامی کا تبادلہ ہوا وہیںیرغمال بنائے گئے خاندانوں میں سے کچھ کے ارکان نے سموٹریچ کو گھیرے میں لے لیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ مغویوں کو گھر لانے کے لیے مزید اقدامات کریں۔انبال زاچ، جس کا کزن تال شوہم ۷؍اکتوبر سے حماس کے ہاتھوں یرغمال ہے۲۵۳؍ افراد میں سے ایک ہے، نے کہا کہ سموٹریچ جیسے وزراء کو یرغمالیوں کی واپسی کیلئے سب کچھ کرگزرنے کی ضرورت ہے۔ اسرائیل کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر خزانہبیزالیل اسموٹرک، جنہوں نے حماس کے ساتھ کسی بھی معاہدے کو مسترد کر دیا ہے اور جنگ بندی کے معاہدے کی تجویز کی مخالفت کی ہے جس کے تحت فلسطینی قیدیوں کے بدلے میں یرغمالیوں کو واپس لایا جانا تھا، اورخاندانوں کی مہم کو مذموم قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ میں حماس کی خاتمےسے پہلے جنگ نہیں روکوں گا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK