Inquilab Logo Happiest Places to Work

اقوام متحدہ نے غزہ کو’’ مکمل قحط زدہ‘‘ قرار دیا، زائد از ۵؍ لاکھ افراد کوبھکمری کا سامنا

Updated: August 23, 2025, 12:56 PM IST | Agency | Gaza

چند میٹر دور سرحد کے اُس پار غذائی امداد کا انبار لگا ہوا ہے مگراہل غزہ بھوک سے مررہے ہیں،عالمی ادارہ نے اسرائیل کو ذمہ دار ٹھہرایا، عالمی برادری کی ناکامی اور بے حسی پر بھی مایوسی۔

For months before Gaza was declared a `famine`, such images were describing the situation on the ground there, but the international community failed to stop Israel. Photo: INN
غزہ کو ’قحط زدہ‘ قرار ددینے سےکئی مہینہ پہلے سے اس طرح کی تصویریں وہاں کی زمینی صورتحال کو بیان کررہی تھیں مگر عالمی برادری اسرائیل کو روکنے میں ناکام ثابت ہوئی۔ تصویر: آئی این این

 اقوام متحدہ نے جمعہ کو سرکاری طور پر غزہ کو ’’قحط زدہ‘‘ قرار دے دیا۔ یہ پہلا موقع ہے جب مشرق وسطیٰ  میں کسی علاقے کو اقوام متحدہ نے قحط زدہ قرار دیا ہے۔ عالمی ادارہ نے اندیشہ ظاہر کیاہے کہ غزہ میں ۵؍ لاکھ سے زائدا فراد کو ’’تباہ کن ‘‘ بھکمری  کا  سامنا ہے۔ اقوام متحدہ کے امداد   کے شعبے کے سربراہ ٹام فلیچر نے کہا ہے کہ اس قحط سے بچا جاسکتاتھا لیکن ’’اسرائیل کے رکاوٹوں کے نظام ‘‘ کی وجہ سے غذا متاثرین تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی حقوق کے سربراہ ولکر ترک نے  بھی کہا ہے کہ غزہ میں قحط کا پھیلنا اسرائیلی حکومت کے اقدامات کا براہِ راست نتیجہ ہے۔
 غزہ میں لوگوں کو بھکمری سے بچایا جاسکتاتھا: اقوام متحدہ
  ٹام فلیچر نے غزہ میں ’’مکمل قحط‘‘ کا اعلان جنیوا میں  اقوام متحدہ کی بریفنگ کے دوران کیا ۔انہوں نے کہاکہ ’’غزہ کا قحط ایسا تھا جسے ہم روک سکتے تھے لیکن ہمیں کام ہی نہیں کرنے دیاگیا۔‘‘ 
انھوں نے مزید بتایا کہ’’ خوراک سے بھرے ٹرکوں کا غزہ کی سرحدوں پر انبار ہے مگر اسرائیلی رکاوٹوں کی وجہ سے غزہ کے لوگ بھوکے مر رہے ہیں۔‘‘ ٹام فلیچر نے اسرائیلی بے رحمی کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ ’’یہ قحط ایک ایسے علاقے میں ہے جہاں کھانا وافر مقدار میں محض چند سو میٹر دور موجود ہے لیکن نہ امداد کو پہنچنے کی اجازت ہے اور نہ فلسطینیوں کو وہاں جانے دیا جا رہاہے۔‘‘
بچے خواتین اور بوڑھے سب سے زیادہ متاثر
 انھوں نے یہ بھی بتایا کہ’’ یہ بحران بچوں، خواتین اور کمزور طبقوں کو سب سے زیادہ متاثر کر رہا ہے۔ والدین کو یہ فیصلہ کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے کہ وہ کس بچے کو کھانا کھلائیں۔‘‘ ٹام فیچر نے عالمی برادری کو بھی عار دلاتے ہوئے کہا کہ’’ یہ۲۱؍ ویں صدی کا قحط ہے جسے ڈرونز اور جدید ترین فوجی ٹیکنالوجی کے سائے میں دنیا اپنی آنکھوں سےدیکھ رہی ہے۔‘‘
’’بھوک کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کیا جارہاہے‘‘
 انھوں نے شکایت کی کہ اقوام متحدہ اور امدادی ادارے بار بار خبردار کرتے رہے مگر بین الاقوامی میڈیا کو غزہ میں جانے کی اجازت نہیں دی گئی۔ٹام فیچر نے نیتن یاہو کابینہ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ بعض اسرائیلی رہنما اس بھوک کو ’’جنگی ہتھیار‘‘ کے طور پر استعمال کر رہے ہیں۔واضح رہے کہ بھوک کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا جنگی جرائم کے زمرے میں آتاہے۔ 
عالمی بے حسی  بھی برابر کی ذمہ دار
 ٹام فلیچر  جواقوام متحدہ کے امداد فراہمی  کے سربراہ اور ایمرجنسی ریلیف کوآرڈنیٹر ہیں، نے مزید کہا کہ ’’یہ قحط ظالمانہ پالیسیوں، انتقامی سوچ، عالمی بے حسی اور شراکت داری کے باعث پیدا ہوا ہے۔ یہ پوری دنیا کیلئے شرمندگی کا باعث ہے اور ہم سب اس کے ذمہ دار ہیں۔‘‘ اس کے ساتھ ہی انہوں  نے اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے فوری جنگ بندی  اور شمالی و جنوبی تمام کراسنگ کھول دینے کا مطالبہ کیا تاکہ خوراک اور امدادی سامان بڑے پیمانے پر پہنچایا جا سکے۔
ظالم اسرائیل کی ڈھٹائی، بھکمری کو پروپگنڈہ قرار دیا
 ادھر ڈھٹائی پر قائم اسرائیلی وزارتِ خارجہ نے غزہ میں قحط کے اقوام متحدہ کی رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے اسے حماس کا پروپیگنڈہ  قرار دیا ہے۔ غزہ میں فلسطینیوں کے نسل کشی کے ملزم  اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے غزہ کے قحط سے متاثر ہونے کی  اقوام  متحدہ کی اس رپورٹ کو مسترد کرتے ہوئے ڈھٹائی کے ساتھ کہا ہے کہ ’’یہ رپورٹ پوری طرح جھوٹ پر مبنی ہے۔ اسرائیل بھوکامارنے کی پالیسی پر عمل نہیں کرتا۔‘‘بہرحال پوری دنیا  غزہ میں  لوگوںکو بھوکر مرتے ہوئے دیکھ رہی ہے اوریہ بھی دیکھ رہی ہے کہ غذائی امداد لینے کیلئے پہنچنے والوں کو گولیاں ماری جارہی ہیں۔ 

غذائی قلت سے بچے سب سے زیادہ متاثر
غزہ میں غذا کی کمی کی سب سے سنگین قیمت بچے چکا رہے ہیں۔عالمی اداروں  نے متنبہ کیا ہے کہ اگر فوری طورپر توجہ نہ دی گئی تو  ایک لاکھ  ۳۲؍ ہزار  بچے  ظالم اسرائیل کی تھوپی ہوئی   اس قحط کی وجہ سے دم توڑ سکتے ہیں۔  اس سال کے پہلے ۷؍ مہینوں  میں ۸۹؍  اموات کو بھوک اور تغذیہ کی کمی کا نتیجہ قراردیا گیا  جن میں اکثریت بچوں کی ہے۔ اس کےبعد صر اگست کے مہینے میں  ۱۳۸؍ اموات بھوک کی وجہ سے ہوئی ہیں۔ان میں ۲۵؍ بچے ہیں۔ اس تعداد میں  تیزی سے اضافے کا اندیشہ ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK