• Sat, 27 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یو این: نیتن یاہو کی تقریر سراسر جھوٹ: جی ایم او، اسرائیلی اپوزیشن کی بھی تنقید

Updated: September 27, 2025, 8:03 PM IST | New York

غزہ میڈیا آفس نے اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو کی اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تقریر کو ’’آٹھ بڑے جھوٹوں‘‘ پر مبنی قرار دیا ہے، اور اسے غزہ میں اسرائیل کے جنگی جرائم اور نسل کشی کو جواز فراہم کرنے کی کوشش بتایا۔ اسرائیلی اپوزیشن نے اس تقریر پر شدید تنقید کی جبکہ اقوام متحدہ میں بڑی تعداد میں مندوبین احتجاجاً واک آؤٹ کر گئے۔

Israeli Prime Minister Benjamin Netanyahu speaking at the United Nations General Assembly. Photo: INN
اسرائیلی وزیر اعظم بنجا مین نیتن یاہو اقوام متحدہ کے اجلاس میں تقریر کرتے ہوئے۔ تصویر: آئی این این

غزہ میڈیا آفس نے جمعہ کو کہا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجامن نیتن یاہو نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں اپنی تقریر کے دوران ’’آٹھ بڑے جھوٹ‘‘ کو فروغ دیا اور اسے غزہ میں اپنے جنگی جرائم اور نسل کشی کو جواز فراہم کرنے کی ایک کوشش قرار دیا۔ بیان کے مطابق نیتن یاہو کی تقریر ’’گمراہ کن اور تضادات سے بھری ہوئی‘‘ تھی۔ غزہ میڈیا آفس نے نیتن یاہو کے اس دعوے کی تردید کی کہ اسرائیل دہشت گردی کے خلاف ’’سات محاذوں‘‘ پر جنگ لڑ رہا ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ اسرائیلی جارحیت نے غزہ میں براہِ راست عام شہریوں اور شہری ڈھانچوں کو نشانہ بنایا۔ بین الاقوامی رپورٹوں کا حوالہ دیتے ہوئے دفتر نے کہا کہ ہلاک ہونے والوں میں ۹۴؍ فیصد فلسطینی شہری ہیں جن میں ۳۰؍ ہزار سے زائد خواتین اور بچے شامل ہیں، جبکہ ۹۰؍ فیصد سے زیادہ اسپتال، اسکول اور بنیادی ڈھانچے تباہ کر دیئے گئے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: مغربی کنارہ کو ہڑپنے کےمجوزہ اسرائیلی منصوبے کی شدید مخالفت

بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو نے ایک طرف فلسطینی مزاحمتی دھڑوں پر لوگوں کو غزہ چھوڑنے سے روکنے کا الزام لگایا اور دوسری جانب یہ بھی کہا کہ ۷؍ لاکھ سے زیادہ فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، جو ان کے اپنے ہی بیانیے میں تضاد ہے۔ دفتر نے اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیل نے رہائشی علاقوں پر ۲؍ لاکھ ٹن سے زائد دھماکہ خیز مواد گرایا، جس کے نتیجے میں ۶۴؍ ہزار فلسطینی شہری ہلاک ہوئے، جن میں ۲۰؍ ہزار بچے اور ۱۰؍ ہزار ۵۰۰؍ خواتین شامل ہیں۔ متعدد خاندان مکمل طور پر صفحہ ہستی سے مٹا دیئے گئے۔
نیتن یاہو کے اس دعوے کو بھی جھوٹ قرار دیا گیا کہ مزاحمتی گروہ امداد لوٹ لیتے ہیں۔ دفتر نے کہا کہ اصل میں اسرائیلی فوج امدادی قافلوں کے گرد ’’موت کے جال‘‘ بناتی ہے، جس کے نتیجے میں ہزاروں شہری ہلاک یا زخمی ہو چکے ہیں۔ مزید کہا گیا کہ ۱۴۷؍ بچوں سمیت سیکڑوں فلسطینی بھوک سے جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بیان میں کہا گیا کہ نیتن یاہو کی جانب سے فلسطین کو تسلیم کرنے والے ممالک پر تنقید بے بنیاد ہے۔ فلسطین کو تسلیم کرنا عالمی برادری کا قانونی و اخلاقی فیصلہ ہے جو عشروں کی جبری نقل مکانی اور قتلِ عام کے بعد فلسطینی عوام کے حقوق کے اعتراف کی نمائندگی کرتا ہے۔ دفتر نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیل کو جنگ بند کرنے، غزہ سے انخلا، سرحدی گزرگاہیں کھولنے، خوراک و ادویات کی فراہمی یقینی بنانے اور فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے لیے فوری اقدامات کرے۔

یہ بھی پڑھئے: یواین میں نیتن یاہو کا غزہ میں نسل کشی اور بھکمری سے انکار، مندوبین کا واک آؤٹ

نیتن یاہو کی تقریر پر اسرائیلی اپوزیشن بھی برہم
نیتن یاہو نے اپنی تقریر میں غزہ میں نسل کشی اور فاقہ کشی کے الزامات کو مسترد کیا، تاہم یہ تقریر اس وقت ہوئی جب اقوام متحدہ کے ایوان میں بڑے پیمانے پر مندوبین واک آؤٹ کر کے باہر چلے گئے۔ اسرائیلی حزبِ اختلاف کے لیڈروں نے بھی نیتن یاہو کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ اپوزیشن لیڈر یائیر لیپڈ نے ایکس پر لکھا کہ ’’دنیا نے آج ایک تھکے ہوئے اور روتے ہوئے اسرائیلی وزیر اعظم کو دیکھا، جس کی تقریر پرانے حربوں اور تضادات سے بھری ہوئی تھی۔‘‘ لیپڈ نے کہا کہ نیتن یاہو یرغمالوں کی رہائی یا جنگ کے خاتمے کیلئے کوئی منصوبہ پیش کرنے میں ناکام رہے، اور سوال اٹھایا کہ تقریباً دو سال کی لڑائی کے بعد بھی حماس کو شکست کیوں نہیں دی جا سکی؟‘‘ انہوں نے مزید لکھا کہ ’’سفارتی سونامی کو روکنے کے بجائے نیتن یاہو نے آج اسرائیل کی عالمی ساکھ کو مزید نقصان پہنچایا۔‘‘
اسی طرح یسرائیل بیتینو پارٹی کے سربراہ ایویگڈور لیبرمین نے بھی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ یہ تقریر پارٹی لیڈر کی تقریر تھی، وزیر اعظم کی نہیں۔ ان کے مطابق نیتن یاہو نے سب سے اہم نکتے یعنی یرغمالوں کی رہائی کے بدلے جنگ کے خاتمے کو نظر انداز کر دیا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK