Updated: November 27, 2023, 4:48 PM IST
| New Delhi
وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا نے کہا کہ اگلے سال کے ۳۰؍ مارچ تک سی اے اے کے فائنل ڈرافٹ کے مکمل ہونے کی توقع ہے۔ ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی سانتا نوسین نے کہا کہ بی جے پی صرف الیکشن کے وقت ہی سی اے اے کو یاد کرتی ہے۔ زعفرانی پارٹی مغربی بنگال میں کبھی بھی سی اےاے نافذ نہیں کر سکے گی۔
وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا۔ تصویر: آئی این این
ریاستی مرکزی وزیر اجے مشرا نے کہا کہ اگلے سال ۳۰؍ مارچ تک سی اے اے کے فائنل ڈرفٹ کے مکمل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ مشرا نے مغربی بنگال کے شمالی ۲۴؍پرگنہ ضلع میں متوا کمیونٹی سے خطاب کے دوران کہا کہ اگلے سال مارچ میں سی اے اے کے فائنل ڈرافٹ کے نافذ ہونے کیلئے مکمل ہونے کی توقع کی جا رہی ہے۔ان کے اس دعویٰ کے جواب میں ترنمول کانگریس کے راجیہ سبھا ایم پی سانتا نو سین نے کہا کہ بی جے پی صرف الیکشن کے وقت ہی متواس اورسی اے اے کو یاد کرتی ہے۔ زعفرانی پارٹی مغربی بنگال میں کبھی بھی سی اے اے نافذ نہیں کر سکے گی۔
خیال رہے کہ سی اے اے ۲۰۱۹ء میں پاس کیا گیا تھاجس کے نتیجے میں مسلمانوں کے گروہوں، اپوزیشن پارٹیوں، رائٹ گروپس اورشمال مشرقی ریاستوں کے لوگوں نے ملک بھرمیں بڑے پیمانے پر احتجاج کیا تھا۔احتجاج کے بعد ریاستی پولیس فورسیز اورمسلح ہندوتوا کے ہاتھوں سیکڑوں مسلمانوں کی موت ہوئی تھی۔ احتجاج کے ختم ہونے کے اتنے سال بعد آج بھی بہت سے لوگوں کو اس کیلئے حراست میں لیا جا رہا ہے جبکہ کئی رائٹس گروپ دہلی پولیس اور اترپردیش کی پولیس کی جانب سے بدسلوکی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔ شہریت کا نیا قانون ، جو ۱۹۵۵ء کے ایک قانون میں ترمیم تھا ،پاکستان، بنگلہ دیش اور افغانستان سے’’ مظلوم‘‘اقلیتوںکو ہندوستانی شہریت کی اجازت دیتا ہےلیکن اس میں مسلمانوں کا کوئی بھی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔سی اے اے نے ۲۰۱۵ء سے پہلے ان تین پڑوسی ممالک سے آئےمذہبی اقلیتوں کیلئے ہندوستانی شہریت آسان بنا دی تھی لیکن ان ممالک سے آئے ہوئے مسلمانوں کا اس میں کوئی بھی ذکر نہیں تھا۔اس کے بعد مسلمانوں میں یہ خوف طاری ہو گیا تھا کہ ان اقدامات کا مقصد انہیںپسماندہ کرنا ہے۔ اپوزیشن پارٹیوں نے بھی اس قانون کی مخالف کرتے ہوئے اسے امتیازی قرار دیا تھا۔تنقید نگاروںنے کہا تھاکہ ۹؍ سال سے وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت کی جانب سےفروغ دیا جانے والا ہندوؤں کی بالادستی کا ایجنڈا ہے۔ اس قانون کے خلاف سپریم کورٹ میں مختلف درخواستیں بھی داخل کی گئی تھیں۔