• Sun, 07 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

دنیا کے۸۸؍ پوسٹل آپریٹرز نے امریکہ کیلئے ڈاک سروس معطل کر دی: یو این

Updated: September 07, 2025, 4:01 PM IST | Genoa

یونیورسل پوسٹل یونین (یو پی یو) کے مطابق واشنگٹن کی جانب سے نئے ٹیرف عائد کئےجانے کے بعد امریکہ جانے والی ڈاک کی ترسیل میں ۸۰؍ فیصد سے زائد کمی آ گئی ہے جبکہ دنیا کے۸۸؍ ڈاک اداروں نے اپنی خدمات جزوی یا مکمل طور پر معطل کر دی ہیں۔

Mail delivery to the United States has decreased by more than 80 percent. Photo: INN.
امریکہ جانے والی ڈاک کی ترسیل میں ۸۰؍ فیصد سے زائد کمی آ گئی ہے۔ تصویر: آئی این این۔

دنیا کے۸۸؍ ممالک نے ٹیرف میں اضافہ اور چھوٹے پارسلوں پر ٹیکس چھوٹ ختم کرنے پر امریکہ کیلئے ڈاک سروس معطل کر دی۔ خبر ایجنسی کے مطابق یونیورسل پوسٹل یونین (یو پی یو) نے سنیچرکو انکشاف کیا کہ واشنگٹن کی جانب سے نئے ٹیرف عائد کئےجانے کے بعد امریکہ جانے والی ڈاک کی ترسیل میں ۸۰؍ فیصد سے زائد کمی آ گئی ہے جبکہ دنیا کے۸۸؍ ڈاک اداروں نے اپنی خدمات جزوی یا مکمل طور پر معطل کر دی ہیں۔ اقوام متحدہ کے ذیلی ادارے یو پی یو کے ڈائریکٹر جنرل ماساہیکو میتوکی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ امریکہ کو ڈاک کی ترسیل بحال کرنےکیلئے ایک نئی تکنیکی حکمت عملی تیزی سے تیار کی جا رہی ہے۔ 

یہ بھی پڑھئے: غزہ نشل کشی: ۲۳؍ ماہ میں ہر گھنٹے ایک فلسطینی بچہ شہید ہونے کا انکشاف

بتا دیں کہ امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے جولائی کے آخر میں اعلان کیا تھا کہ۲۹؍ اگست سے امریکہ میں داخل ہونے والے چھوٹے پارسلز پر ٹیکس استثنیٰ ختم کر دیا جائے گا۔ اس اقدام کے بعد آسٹریلیا، برطانیہ، فرانس، جرمنی، ہندوستان، اٹلی اور جاپان سمیت متعدد ممالک کی ڈاک اداروں نے اعلان کیا کہ اب امریکہ بھیجے جانے والے زیادہ تر پارسل وصول نہیں کئے جائیں گے۔ یونیورسل پوسٹل یونین ( یو پی یو) کے مطابق اس کے الیکٹرانک نیٹ ورک کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ۲۹؍ اگست کو امریکہ جانے والی ڈاک میں ایک ہفتہ قبل کے مقابلے میں ۸۱؍یصد کمی واقع آئی ہے۔ یو پی یو کا کہنا ہے کہ۸۸؍ ڈاک اداروں نے یو پی یو کو مطلع کیا ہے کہ انہوں نے امریکہ کیلئے کچھ یا تمام خدمات اس وقت تک معطل کر دی ہیں جب تک کوئی حل نافذ نہیں کیا جاتا، ان میں جرمنی کا ڈوئچے پوسٹ، برطانیہ کا رائل میل اور بوسنیا و ہرزیگووینا کے دو ادارے شامل ہیں۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK