اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے، ادارے نے اس کے نمٹنے کیلئے عالمی اقدامات کی اپیل کی ہے، ۹۰۰؍ دنوں سے جاری خانہ جنگی میں لاکھوں افراد بھوک، بیماریوں اور بے گھر کا شکار ہیں۔
EPAPER
Updated: October 25, 2025, 3:30 PM IST | Khartoum
اقوام متحدہ نے خبردار کیا ہے کہ سوڈان کا بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے، ادارے نے اس کے نمٹنے کیلئے عالمی اقدامات کی اپیل کی ہے، ۹۰۰؍ دنوں سے جاری خانہ جنگی میں لاکھوں افراد بھوک، بیماریوں اور بے گھر کا شکار ہیں۔
انٹرنیشنل آرگنائزیشن فار مائگریشن (IOM)، یو این ایچ سی آر، یونیسیف، اور ورلڈ فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ سوڈان اس وقت دنیا کے انتہائی سنگین ہنگامی حالات سے دوچار ممالک میں شامل ہے، جہاں۳؍ کروڑ سے زائد افراد کو امداد کی ضرورت ہے اور ۹۶؍ لاکھ افراد اپنے ہی ملک میں بے گھر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ تقریباً ڈیڑھ کروڑ بچوں کو بھی مدد درکار ہے۔حال ہی میں سوڈان کے دوروں کے دوران، ایجنسیوں کے سربراہوں نے خرطوم، دارفور اور دیگر جنگ زدہ علاقوں میں تباہی کو براہ راست دیکھا، جہاں قحط، بیماریاں اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں وسیع پیمانے پر ہیں۔IOM کی ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل برائے آپریشنز، یوگوچی ڈینیلز نے کہا، ’’خرطوم میں لوگوں کی اس پیمانے پر واپسی ایک جانب تو لوگوں کے عزم کی علامت ہے تو دوسری جانب ایک انتباہ بھی ہے۔ لوگ ایک ایسے شہر واپس آرہے ہیں جو اب بھی جنگ کی زد میں ہے، جہاں مکانات تباہ ہیں اور بنیادی سہولیات بری طرح متاثر ہیں۔‘‘
یہ بھی پڑھئے: جنگ بندی کے باوجود غزہ پٹی میں انسانی بحران سنگین تر ہوتا جارہا ہے:رپورٹ
تیسرے سال میں داخل ہونے والی اس جنگ نے صحت اور تعلیم جیسی بنیادی سہولیات کو تباہ کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں ملک کے۱۷؍ ملین اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں سے۱۴؍ ملین اسکول نہیں جا پا رہے۔ گزشتہ سال سوڈان کے بعض حصوں میں قحط کی تصدیق ہوئی تھی، اور بھوک اب بھی تباہ کن سطح پر ہے، جہاں فوری خوراک اور غذائی امداد نہ ملنے کی صورت میں ہزاروں افراد موت کے دہانے پر ہیں۔دارفور اور کورڈوفان کے صوبوں میں عوام پھنس چکی ہیں اور خوراک، پانی اور طبی امداد سے کٹ گئی ہیں۔ یونیسیف کے مطابق الفاشر میں ہیضہ، ڈینگی، اور ملیریا کی وبائیں پھیل رہی ہیں اور صحت کے مراکز تباہ ہو چکے ہیں۔
یونیسیف کے ڈپٹی ایگزیکٹو ڈائریکٹر، ٹیڈ چائیبان نے کہا، ’’اس ہفتے دارفور اور دیگر جگہوں پر جو کچھ میں نے دیکھا وہ اس بات کی واضح یاد دہانی ہے کہ داؤ پر کیا لگا ہے: بچے بھوک، بیماریوں اور بنیادی سہولیات کے زوال کا سامنا کر رہے ہیں۔ خاندان زندہ رہنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں، لیکن ان کے عزم کے ساتھ فوری عالمی عمل کا ہونا ضروری ہے۔یو این ایچ سی آر کی ڈپٹی ہائی کمشنر، کیلے ٹی کلیمنٹس نے اس صورتحال کو بدترین تحفظی بحران قرار دیتے ہوئے وسیع پیمانے پر بے گھر ہونے اور جنسی تشدد کے بڑھتے ہوئے خطرات کی نشاندہی کی۔سنگین حالات کے باوجود، کچھ علاقوں میں لڑائی کم ہونے کے بعد۲۶؍ لاکھ سے زائد افراد اپنے گھروں کو واپس آ چکے ہیں۔ لیکن زیادہ تر واپس آنے والوں نے اپنے علاقوں کو تباہ حال اور بنیادی سہولیات کو ناکارہ پایا ہے۔ امداد میں کمی بحران کو اور گہرا رہی ہے۔ سوڈان کے لیے ہیومینیٹیرین رسپانس پلان میں سے صرف 25 فیصد فنڈز ہی مل سکے ہیں، جس سے ہنگامی آپریشن خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ امدادی ایجنسیوں نے اس سال اب تک ایک کروڑ ۳۰؍ لاکھ افراد تک رسائی حاصل کی ہے لیکن انھوں نے خبردار کیا ہے کہ مزید وسائل نہ ملنے کی صورت میں زندگی بچانے والی امداد میں کمی کی جا سکتی ہے۔ خرطوم واپس آنے والے خاندانوں کو خوراک، پانی اور بنیادی سہولیات کی اشد ضرورت ہے۔ایجنسیوں نے مشترکہ طور پر فوری جنگ بندی، بلا روک ٹوک انسانی امداد تک رسائی، امدادی کارروائیوں کے طریقہ کار کو آسان بنانے، فوری فنڈنگ، اور بے گھر ہونے والے افراد اور پناہ گزینوں کے لیے مسلسل تعاون کی اپیل کی ہے۔
یہ بھی پڑھئے: تمام فلسطینی گروہوں سے گفت و شنید کیلئے تیار: حماس
واضح رہے کہ اپریل ۲۰۲۳ء سے، سوڈان سوڈانی آرمڈ فورسیز اور ریپڈ سپورٹ فورسیزکے درمیان جاری جنگ کی وجہ سے ایک غیر معمولی انسانی بحران کا سامنا کر رہا ہے۔ عوام تشدد کا سب سے زیادہ شکار ہیں۔ جہاں تقریباً۹؍ ملین افراد ملک کے اندر بے گھر ہوئے ہیں، جو سوڈان کو دنیا کا سب سے بڑا داخلی بحران ہے۔ اس کے علاوہ۳۰؍ لاکھ سے زائد افراد نے پڑوسی ممالک میں پناہ لی ہے۔