Inquilab Logo Happiest Places to Work

پونے: منفرد مدرسہ جہاں سماعت، گویائی سے محروم بچے ایک چھت تلے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کررہے ہیں

Updated: July 14, 2025, 3:55 PM IST | Suhail Bhatt | Mumbai

۱۷؍ ریاستوں کے ایسے طلبہ کو جامعہ عبد اللہ بن ام مکتوم بلا معاوضہ تعلیم فراہم کرتے ہوئے، یہ ثابت کررہا ہے کہ معذوری وقار، ایمان یا بلند حوصلگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔

Students can be seen queuing outside the main gate of Abdullah Ibn Umm Maktoum University. Photo: INN
جامعہ عبداللہ ابن ام مکتوم کے صدردروازے کے باہر طلبہ قطار بند دیکھے جاسکتے ہیں۔ تصویر: آئی این این

ریاست کے شہر پونے کے ایک چھوٹے سے میدان میں، مئی کی ایک صبح، یونیفارم میں ملبوس بچوں کا ایک گروپ ننگے پاؤں سفید ٹوپی پہنے کھڑا تھا۔ ان میں سے کئی بچے گونگے یا نابینا تھے۔ جیسے ہی پس منظر میں قومی ترانہ بجنے لگا، تمام بچے  احتراماً کھڑے ہو گئے، جبکہ بہرے اور گونگے بچوں نے اشاروں کی زبان میں ترانے کے الفاظ کا اظہار کیا۔ یہ منظر حب الوطنی اور اتحاد کی  جھلک پیش کر رہا تھا۔ جامعہ عبد اللہ بن ام مکتوم میں دن کی شروعات ایسے ہی ہوتی ہے، جہاں سینکڑوں بہرے، گونگے اور نابینا طلباء کو مفت اسلامی اور عصری تعلیم دی جاتی ہے۔
مدرسے کے سیکریٹری، نعیم احمد قاسمی کہتے ہیں:’’ہمیں والدین کو یہ سمجھانے میں کئی سال لگے کہ ان کے خصوصی بچوں کیلئے تعلیم کتنی اہم ہے۔یہ  ادارہ۲۰۱۳ء میں صرف دو بچوں کے ساتھ قائم ہوا، اس ویژن کے ساتھ کہ ملک بھر سے معذور بچوں کو جامع تعلیم کے ذریعے خود مختار اور باوقار زندگی کی راہ پر گامزن کیا جائے۔‘‘ ۲۰۱۱ءکی مردم شماری کے مطابق، ہندوستان کی تقریباً۲ء۲؍فیصد آبادی (یعنی تقریباً۲؍ کروڑ۶۸؍ لاکھ لوگ) کسی نہ کسی  طرح کی معذوری کا شکار ہیں۔ افسوس کے ساتھ، اکثر خاندان ایسے بچوں کو بوجھ سمجھ کر یا تو چھوڑ دیتے ہیں یا انہیں گھروں میں قید رکھتے ہیں۔قاسمی کہتے ہیں، ’’یہ ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ خصوصی بچوں کی مدد کرے تاکہ وہ اپنی صلاحیتوں کو ثابت کر سکیں۔اکثر بچے دیہی علاقوں سے آتے ہیں جہاں نہ والدین کو تعلیم کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے اور نہ ہی ان کے بچوں کیلئے  دستیاب مواقع کی کوئی معلومات ہوتی ہے۔‘‘
جلگاؤں کے ۱۸؍ سالہ ریحان سلیم کہتے ہیں:’’جامعہ میں آنے سے پہلے مجھے اسلامی یا دنیاوی تعلیم کا کچھ پتہ نہیں تھا۔اللہ کے فضل سے، میں نے یہاں مکمل قرآن مجید حفظ کیا اور عمرہ کی سعادت حاصل کی۔‘‘ آج، جامعہ عبد اللہ ابن ام مکتوم میں۱۷؍ ریاستوں کے ۲۱۰؍ بہرے، گونگے اور نابینا طلباء زیر تعلیم ہیں۔ یہ ادارہ جماعت اول سے بارہویں  تک کی مفت تعلیم فراہم کرتا ہے، جن میں سائنس، کمپیوٹر، اسلامیات اور اعلیٰ تعلیم شامل ہے۔بہت سے طلباء بعد میں مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں داخلہ لیتے ہیں۔ جو بچے جامعہ میں آ کر تعلیم حاصل نہیں کر سکتے، ان کیلئے  آن لائن تعلیمی پروگرام بھی شروع کیا گیا ہے۔ یہاں بچوں کو تعلیم کے ساتھ ساتھ کھانا، رہائش اور یونیفارم بھی مفت دئیے جاتے ہیں۔ قاسمی کہتے ہیں،’’ہماری خواہش ہے کہ یہ بچے کل ملک کی نمائندگی کریں۔‘‘ خیال رہے کہ تمام مشکلات کے باوجود، یہ ادارہ ایک کامیاب مرکز میں تبدیل ہو چکا ہے۔۲۰۲۱ء میں، جامعہ نے معذور خواتین کے لیے الگ شعبے قائم کیے تاکہ انہیں بھی تعلیم کے مساوی مواقع دیے جا سکیں۔ خواتین کی تعلیم بھی مردوں کے برابر اہم ہے، اور یہ اقدام اسی عزم کی عکاسی کرتا ہے۔ معذور طالبات کو پڑھانے والی مبشرہ سعدیہ خان کہتی ہیں: ’’خواتین کی تعلیم مردوں کے برابر اہم ہے۔ یہ بچیاں عام طور پر گھروں میں گھریلو کاموں میں مصروف رہتی ہیں، لیکن ہم انہیں بہتر تعلیم دے کر زندگی کا مقصد سکھا رہے ہیں۔’’چونکہ ملک میں خواتین کی سلامتی ایک بڑا مسئلہ ہے، اسلئے  جامعہ نے ان کے لئے  الگ رہائشی کمروں اور صرف خواتین پر مشتمل عملے کا انتظام کیا ہے تاکہ وہ محفوظ اور بااعتماد ماحول میں تعلیم حاصل کر سکیں۔مبشرہ مزید کہتی ہیں، ’’عام طور پر خواتین محفوظ نہیں ہوتیں، لیکن ہم نے یہاں ایک محفوظ جگہ قائم کی ہے جہاں یہ بچیاں اعتماد سے سیکھ رہی ہیں۔‘‘اگرچہ ملک میں تعلیم کے میدان میں بہت ترقی ہوئی ہے، لیکن معذور بچے اب بھی اصل دھارے کے تعلیمی نظام سے دور ہیں، انہیں مواقع سے محروم رکھا جاتا ہے اور اکثر بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ ان میں سے کئی بچے سڑکوں پر بھیک مانگتے نظر آتے ہیں — یہ ان کی مرضی سے نہیں، بلکہ اس معاشرے کی ناکامی ہے جو انہیں بہتر متبادل نہیں دیتا۔قاسمی کہتے ہیں،’’ہم اکثر انہیں سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھتے ہیں، یہ ان کی خواہش نہیں ہوتی، بلکہ یہ معاشرے کی طرف سے موقع نہ دیے جانے کا نتیجہ ہے۔‘‘ جامعہ اس بات کو یقینی بنانے کیلئے کوشاں ہے کہ معذور طلباء کو معیاری تعلیم، مناسب سہولیات اور کھیل و تخلیقی سرگرمیوں میں حصہ لینے کے بھرپور مواقع دیے جائیں۔ اس کا مقصد ہے کہ یہ بچے بھی دوسروں کی طرح کامیابی کے ساتھ زندگی گزار سکیں۔قاسمی کہتے ہیں’’ہم نے اسمارٹ بورڈز، ڈیجیٹل ٹولز اور انکلوژن پر مبنی کلاس رومز متعارف کروائے ہیں، کیونکہ ہر بچہ، چاہے اسکی صلاحیت کچھ بھی ہو، معیاری اور جدید تعلیم کا حقدار ہے۔‘‘ موجودہ حالات میں، مسلم سماج کو اکثر منفی انداز میں پیش کیا جاتا ہے اور مدرسہ تعلیم کو غلط سمجھا جاتا ہے۔ ان چیلنجز کے باوجود، جامعہ عبد اللہ ابن ام مکتوم معذور بچوں کو معیاری تعلیم فراہم کر رہا ہے تاکہ وہ علم، خود اعتمادی اور وقار کیساتھ زندگی گزار سکیں۔ (بشکریہ :ٹو سرکلز ڈاٹ نیٹ)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK