Inquilab Logo Happiest Places to Work

اسرائیل، ’غزہ کوریج‘ کیلئے انٹرنیشنل میڈیا پر پابندی ختم کرے: انروا

Updated: July 19, 2025, 5:05 PM IST | Gaza

انروا کے سربراہ نے کہا کہ میڈیا پر پابندی غلط معلومات کی مہمات کو فروغ دیتی ہے جو عینی شاہدین اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے براہ راست اعداد و شمار اور بیانات پر سوال اٹھاتی ہیں۔

Philippe Lazzarini. Photo: Youtube
فلپ لارزینی۔ تصویر: یوٹیوب

فلسطینی پناہ گزینوں کیلئے اقوام متحدہ کی ایجنسی (انروا) کے سربراہ نے جمعہ کو غزہ میں بین الاقوامی میڈیا کی رسائی پر عائد اسرائیلی پابندی کو فوری طور پر ختم کرنے کا مطالبہ کیا۔ انہوں نے خبردار کیا کہ معلومات کا یہ بلیک آؤٹ غلط معلومات کو فروغ دے رہا ہے اور اس کے نتیجے میں عینی شاہدین و انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے بیانات پر اعتماد میں کمی آرہی ہے۔ 

انروا کے سربراہ فلپ لازارینی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر کہا کہ گزشتہ ۶۵۰ دنوں سے زائد عرصے سے غزہ کی میڈیا کوریج پر پابندی برقرار ہے جبکہ محصور علاقے کے شہریوں کے خلاف مظالم کا سلسلہ جاری ہے۔ لازارینی نے زور دیا کہ غزہ پٹی میں بین الاقوامی میڈیا کے داخلے پر پابندی ہٹائی جانی چاہئے۔ انہوں نے نشان دہی کی کہ جاری تنازع کے دوران ۲۰۰ سے زیادہ فلسطینی صحافی مارے گئے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میڈیا پر پابندی غلط معلومات کی مہمات کو فروغ دیتی ہے جس کی وجہ سے عینی شاہدین اور بین الاقوامی انسانی ہمدردی کی تنظیموں کے براہ راست اعداد و شمار اور بیانات پر سوال اٹھائے جاتے ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: سلووینیا نے غزہ کی ناگفتہ بہ صورتحال کے ذمہ داراسرائیلی وزراء پر پابندی عائد کی

غزہ میں اسرائیلی قتل عام

واضح رہے کہ غزہ پٹی میں گزشتہ ۲۱ ماہ سے جاری فلسطینیوں کی نسل کشی پر مبنی اسرائیلی کارروائیوں میں ۵۹ ہزار سے زائد فلسطینی جاں بحق ہوچکے ہیں جن میں زیادہ تر بچے اور خواتین شامل ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اصل ہلاکتوں کی تعداد غزہ حکام کی رپورٹ کردہ تعداد سے کہیں زیادہ، تقریباً ۲ لاکھ کے قریب ہو سکتی ہے۔ اس قتل عام کے دوران، اسرائیل نے غزہ پٹی کے بیشتر علاقے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور محصور علاقے کی تقریباً ۲۲ لاکھ کی فلسطینی آبادی کو بے گھر کر دیا ہے۔ صہیونی ریاست نے انتہائی ضروری انسانی امداد کی ترسیل کو بھی روک دیا ہے جس کی وجہ سے علاقہ میں انسانی بحران شدید تر ہوتا جارہا ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK