• Sat, 06 September, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

یوپی: ۷؍مسلمانوں نے حراستی تشدد اور ”تبدیلی ِ مذہب“ معاملے میں جبری اعتراف کرانے کا الزام عائد کیا

Updated: September 05, 2025, 7:02 PM IST | Lucknow

ملزمین کے خلاف اتر پردیش غیر قانونی تبدیلی مذہب ممانعت قانون ۲۰۲۱ء کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں، جس میں اغوا اور دھمکیاں دینے کے الزامات بھی شامل ہیں۔

Photo: INN
تصویر: آئی این این

مبینہ ”تبدیلی مذہب کا ریکیٹ“ چلانے کے الزام میں گرفتار کئے گئے ۷ مسلمان افراد نے پولیس پر غیر قانونی حراست، تشدد اور جبری اعتراف کرانے کے الزامات عائد کئے ہیں جس کے بعد الٰہ آباد ہائی کورٹ نے اس معاملے میں مداخلت کرتے ہوئے بریلی پولیس کو سمن بھیجا ہے۔ عدالت نے بریلی پولیس کے ایڈیشنل ڈائریکٹر جنرل (اے ڈی جی)، انسپکٹر جنرل (آئی جی) اور سینئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) جیسے سینئر افسران کو ۸ ستمبر کو ذاتی طور پر حاضر ہونے کا حکم دیا ہے۔

ملزمین کے خاندانوں کی جانب سے دائر کی گئی ہیبیئس کارپس پٹیشن کے مطابق، ملزمین کو اگست میں سادہ لباس میں ملبوس اہلکاروں نے بغیر کسی وارنٹ یا گرفتاری میمو کے گرفتار کرلیا تھا۔ کئی دنوں تک خاندانوں کو ان کے ٹھکانے کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔ رشتہ داروں کے مطابق، آخرکار جب انہیں ملنے کی اجازت دی گئی تو زیر حراست افراد نے مار پیٹ، بجلی کے جھٹکے اور خالی کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کرنے کی اطلاع دی۔

یہ بھی پڑھئے: ریاستی حکومتوں کو حراستی مراکز قائم کرنے کی ہدایت کانوٹیفکیشن جاری

حراست میں لئے گئے افراد میں محمد سلمان (فیکٹری ملازم)، محمد عارف (ٹیچر)، فہیم انصاری (نائی جس پر نومسلموں کی ختنہ کرنے کا الزام ہے)، محمود بیگ (کپڑوں کا تاجر)، عالم عقیل اور محمد عبداللہ شامل ہیں۔ محمود بیگ کے خاندان نے دعویٰ کیا کہ پولیس نے اس کی رہائی کیلئے ایک لاکھ روپے کا مطالبہ کیا۔ ۲۰۱۴ء میں اسلام قبول کرنے والے عبداللہ کا نام پہلے برجپال تھا۔ ان کی اہلیہ تبسم نے الزام لگایا کہ انہیں مارا پیٹا گیا اور ”گھر واپسی“ کے ذریعے ہندو مذہب میں واپس آنے کا وعدہ کرتے ہوئے کاغذات پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا۔ ان کی والدہ اوشا رانی نے ’مکتوب‘ کو بتایا کہ عبداللہ نے رضاکارانہ طور پر مذہب تبدیل کیا تھا اور خاندان نے اس کے فیصلے کو قبول کر لیا تھا۔

دوسری جانب، پولیس کا دعویٰ ہے کہ یہ افراد، ہندوؤں کا زبردستی مذہب تبدیل کرانے والے گروہ کا حصہ تھے۔ بریلی کی ایس پی انشیکا ورما نے میڈیا کو بتایا کہ یہ ریکیٹ ایک نابینا شخص کے والد کی جانب سے لاپتہ شخص کی شکایت درج کرانے کے بعد سامنے آیا، جس کو مبینہ طور پر مذہب تبدیل کرنے کیلئے بہلایا گیا تھا۔ ملزمین کے خلاف اتر پردیش غیر قانونی تبدیلی مذہب ممانعت قانون ۲۰۲۱ء کے تحت مقدمات درج کئے گئے ہیں، جس میں اغوا اور دھمکیاں دینے کے الزامات بھی شامل ہیں۔

یہ بھی پڑھئے: مسلمانوں کےعلاوہ تمام غیر ملکی اقلیت کو بنا پاسپورٹ ہندوستان میں ٹھہرنے کی اجازت

الٰہ آباد ہائی کورٹ کا موقف

تاہم، اتر پردیش کی ہائی کورٹ نے تشویش کا اظہار کیا کہ اگر تشدد اور غیر قانونی حراست کے الزامات سچ ثابت ہوئے تو یہ ملزمین کے”بنیادی حقوق کی سنگین خلاف ورزی“ کے مترادف ہوگا۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس طرح کی گرفتاریوں اور ”تبدیلی مذہب کے ریکیٹ“ کے خلاف کارروائی کے بہانے مسلمانوں کو حراستی زیادتیوں کا شکار بنایا جارہا ہے۔

بریلی کے ایس ایس پی انوراگ آریہ نے تصدیق کی کہ وہ عدالت میں پیش ہوں گے لیکن تشدد کے الزامات پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ ۸ ستمبر کو ہائی کورٹ میں اس کیس کی سماعت ہوگی جہاں زیر حراست افراد کو بھی پیش کئے جانے کی توقع ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK