Inquilab Logo Happiest Places to Work

مظفر نگر میں طالب علم کو طمانچہ مارنے کے کیس میں یوپی سرکار کی سرزنش

Updated: September 26, 2023, 8:36 AM IST | Agency | New Delhi

سپریم کورٹ نے یوگی حکومت کو سخت سست کہا، رپورٹ طلب کی اور جانچ کیلئے آئی پی ایس افسر کی تقرری کا حکم دیا۔

The teacher of Muzaffarnagar who is accused of religious discrimination. Photo. INN
مظفر نگر کی وہ ٹیچر جس پر مذہبی امتیاز کا الزام ہے۔ تصویر:آئی این این

اتر پردیش کے مظفر نگر میں مسلم طالب علم کو اس کے مذہب کی بنیاد پر نشانہ بنانے اور دیگر طلبہ سے اسے پٹوانے کے معاملے میں پیر کو یوگی سرکار کو سخت سرزنش کا سامنا کرنا پڑا۔ سپریم کورٹ  نےاس معاملے کی سماعت کرتے ہوئے نہ صرف  ناقص جانچ پر برہمی کا اظہار  کیا  بلکہ ریاست میں  حق معلومات قانون کے نفاذ پر بھی سوال اٹھایا بلکہ حکومت کو اس ضمن میں  رپورٹ پیش کرنے کی ہدایت بھی دی۔ جسٹس ابھے ایس اوکا اور جسٹس پنکج متھل کی ڈویژنل بنچ نے جانچ اوراس کی نگرانی کیلئے آئی پی ایس افسر کو مقرر کرنے کا حکم دیتے ہوئے  یوگی سرکار کو متاثرہ طالب علم کی مناسب کونسلنگ کا انتظام کرنے کی ہدایت بھی  دی۔
 عدالت نے  طالب علم کو اس کی مذہبی شناخت کی بنیاد پر  ایک ٹیچر کے ذریعہ دیگر طلبہ سے پِٹوانے  کے معاملے کو غیر معمولی قرار دیا ۔ یہ کہتے ہوئے کہ یہ معاملہ یوپی کے ضمیر کو جھنجھوڑ دینے کیلئے کافی تھا، کورٹ نے کہا کہ پہلی نظر میں ایسا معلوم ہوتاہے کہ یوپی حکومت حق معلومات قانون کے التزامات کو  پوری طرح نافذ کرنے  ناکام ہے۔ یہ قانون  بچوں کو مذہب، ذات یا جنس کے امتیاز کے بغیر ۱۴؍ سال کی عمرتک لازمی، مفت اور  معیاری تعلیم کو ان کا حق فراہم کرتاہے جس کی ذمہ داری ریاستی حکومت پر عائد ہوتی ہے۔
 کورٹ نے بچوں کو انصاف فراہم کرنے کیلئے بنائے گئے  خصوصی قانون ’جوینائل جسٹس ایکٹ‘ کے تحت ملزمہ کے خلاف کیس درج کرنے میں تاخیر کی بھی نشاندہی کی اوراسے یوگی سرکار کی لاپروائی سے تعبیر کیا۔ دورکنی بنچ نے کہا کہ  طالب علم کو دی جانے والی یہ سزا’’بدترین جسمانی سزا‘‘ کے زمرے میں شامل کی جاسکتی ہے۔ ‘‘بنچ نے کہاکہ’’یہ معاملہ معیاری تعلیم سے متعلق ہے، جس میں حساس تعلیم بھی شامل ہے۔‘‘عدالت نے کہا کہ ریاستی حکومت طلباء کو جسمانی اور ذہنی  ہرسانی  نیز مذہب اور ذات پات کی بنیاد پرامتیازی سلوک سے محفوظ رکھنے میں  ناکام نظر آتی ہے۔ جسٹس اوکا نے کہا کہ ہم کبھی بھی ایسے معاملوں کا از خود نوٹس لے سکتے ہیں کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل ۲۱؍  اے (تعلیم کا حق) کی براہ راست خلاف ورزی ہے۔بنچ نے حکومت کی اس دلیل کو مسترد کر دیا کہ تشار گاندھی کی طرف سے دائر درخواست پر غور نہیں کیا جا سکتا کیونکہ وہ مہاتما گاندھی کے پڑپوتے ہیں۔
عدالت عظمیٰ نے کیس درج کرنے میں طویل تاخیر اور ریاستی حکومت  کے طریقہ کار پر بھی شدید اعتراض کیا۔ جب حکومت کی نمائندگی کرتے ہوئے ایڈیشنل سالیسٹر جنرل کے ایم نٹراج نے کہا کہ فرقہ وارانہ پہلو کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا ہےتو بنچ نے کہاکہ’’یہ بہت سنگین معاملہ ہے۔ استاذ نے مذہب کی وجہ سے بچے کو مارنے کا حکم دیا؟  یہ کیسی تعلیم دی جا رہی ہے؟‘‘بنچ نے نٹراج سے کئی سوالات پوچھے ۔ کورٹ نے کہا کہ’’چارج شیٹ کب داخل ہوگی؟ گواہوں اور بچے کو کیا تحفظ دیا جائے گا؟ ہم جاننا چاہتے ہیں۔ ‘‘بنچ جو اس معاملے کو بہت ہی باریک بینی سے دیکھ رہی ہے نے ریاستی حکومت سے سوال کیا کہ ’’(متاثرہ طالب علم کے والد) نے ایک بیان دیا تھا جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اسے مذہب کی وجہ سے مارا پیٹا گیا ہے۔ مقدمے میں اس الزام کا ذکر نہیں ہے۔‘‘
سپریم کورٹ نے یہ بھی نوٹ کیا کہ کافی وقت گزرنے کے بعد۶؍ ستمبر۲۰۲۳ء کو جوینائل جسٹس ایکٹ  ۲۰۱۵ء کی دفعہ۷۵؍ اور آئی پی سی کی دفعہ۳۲۳؍ اور۵۰۳؍ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔
سپریم کورٹ نے ریاستی حکومت کو تعمیل رپورٹ داخل کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ ریاست کو اس اہم سوال کا جواب دینا ہوگا کہ وہ جرم کے شکار کو اس کی معیاری تعلیم کے لیے کیا سہولیات (آر ٹی ای ایکٹ کے تحت) فراہم کرے گی۔ یہ ایکٹ کہتا ہے کہ ریاست کسی بچے سے اسی اسکول میں تعلیم جاری رکھنے کی توقع نہیں کر سکتی۔سپریم کورٹ نے کیس کی اگلی سماعت کیلئے ۳۰؍  اکتوبر کی تاریخ مقرر کی ہے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK