اس لفظی جھڑپ کے بعد کئی صارفین نے ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت میں امیگریشن پر سخت کارروائیوں کے درمیان لومر کی نسلی بیان بازی کو اجاگر کیا۔
EPAPER
Updated: September 29, 2025, 9:56 PM IST | Washington
اس لفظی جھڑپ کے بعد کئی صارفین نے ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت میں امیگریشن پر سخت کارروائیوں کے درمیان لومر کی نسلی بیان بازی کو اجاگر کیا۔
برطانوی-امریکی صحافی مہدی حسن اور امریکہ کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی رضاکار لورا لومر کے درمیان سوشل میڈیا پر گرما گرم بحث ہوگئی جس کے بعد لومر نے حسن سے برطانیہ یا ”اسلامی ملک،“ جہاں ان کے بقول حسن کے والدین پیدا ہوئے تھے، ”واپس چلے جانے“ کیلئے کہا۔
یہ بحث اس وقت شروع ہوئی جب حسن نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر مشی گن چرچ فائرنگ میں ملوث شخص کے متعلق ایک پوسٹ پر اپنا ردعمل ظاہر کیا۔ انہوں نے لکھا کہ ”ایک عدد اے آر -۱۵ (رائفل)، امریکی پرچم اور فائرنگ کا واقعہ۔ میرے خیال میں اس سے زیادہ ’امریکی‘ اور کچھ نہیں ہو سکتا۔“
You are a Muslim immigrant. You can go back to the UK and the Islamic countries your parents were born in any time you want.
— Laura Loomer (@LauraLoomer) September 29, 2025
Why are you even in the US if you hate it here?
Just leave. I don’t get it.
What will it take to make you leave?
You hate our country. https://t.co/AmkoHMhOQy
لومر نے اس تبصرے کے بعد حسن پر حملہ کرتے ہوئے لکھا کہ ”تم ایک مسلم تارک وطن ہو۔ تم واپس برطانیہ اور ان اسلامی ممالک میں جا سکتے ہو جہاں تمہارے والدین پیدا ہوئے تھے… اگر تم امریکہ سے اتنی نفرت کرتے ہو تو تم یہاں ہو ہی کیوں؟“
حسن نے فوری طور پر اس کا سخت جواب دیا اور لومر کو درست کرتے ہوئے کہا کہ ”میرے والدین ہندوستان میں پیدا ہوئے تھے جو ’اسلامی ملک‘ نہیں ہے۔ تمہاری معلومات، عقل اور آئی کیو، ایک بہت چھوٹے (اور غصے والے) بچے کی طرح ہے۔“
India is where my parents were born and it is not an ‘Islamic country’. You have the knowledge, intellect, and IQ of a very small (and angry) child. https://t.co/kFoCF6zJFg
— Mehdi Hasan (@mehdirhasan) September 29, 2025
دونوں کے درمیان یہ لفظی جھڑپ جلد ہی سوشل میڈیا صارفین کی توجہ کا مرکز بن گئی جس کے بعد کئی صارفین نے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کی دوسری صدارتی مدت میں امیگریشن پر سخت کارروائیوں کے درمیان لومر کی نسلی بیان بازی کو اجاگر کیا۔
اس سے پہلے، حسن نے فلسطینیوں اور غزہ سے طبی دیکھ بھال کی ضرورت والے بچوں کو امریکہ میں داخلے سے روکنے والی ٹرمپ انتظامیہ کی ویزا فریز پالیسی کے بارے میں ’رولنگ اسٹون‘ کی ایک رپورٹ بھی شیئر کی۔ انہوں نے اس اقدام کو ”بے رحمانہ اور سماج دشمن“ قرار دیا تھا۔ جبکہ ٹرمپ کی پُرجوش حامی لومر نے علاج کیلئے امریکہ آنے والے فلسطینی بچوں کو ”اسلامی حملہ آور“ کہا تھا، بعد میں انہوں نے اپنی پوسٹ کو ڈیلیٹ کر دیا۔ وہ اس سے پہلے بھی اپنے نسلی تبصروں کی وجہ سے تنازعات کا شکار ہو چکی ہیں۔ لومر ٹرمپ کی امیگریشن پالیسی اور سخت ویزا قوانین کی حمایت کرتی ہیں، جس میں ایچ-ون بی ویزا کی فیس میں زبردست اضافے کا حالیہ اقدام بھی شامل ہے۔