مشی گن کی اٹارنی جنرل ڈانا نیسل نے یونیورسٹی آف مشی گن کے سات طلبہ مظاہرین کے خلاف الزامات ختم کر دیے ہیں، اور کہا ہے کہ ’’میں اب ان مقدمات کو اپنے محکمے کے وسائل کا دانشمندانہ استعمال نہیں سمجھتی۔‘‘
EPAPER
Updated: May 06, 2025, 7:04 PM IST | Washington
مشی گن کی اٹارنی جنرل ڈانا نیسل نے یونیورسٹی آف مشی گن کے سات طلبہ مظاہرین کے خلاف الزامات ختم کر دیے ہیں، اور کہا ہے کہ ’’میں اب ان مقدمات کو اپنے محکمے کے وسائل کا دانشمندانہ استعمال نہیں سمجھتی۔‘‘
ستمبر کے شروع میں، مشی گن کی اٹارنی جنرل ڈانا نیسل (ڈیموکریٹ) کے دفتر نے این آربر میں یونیورسٹی آف مشی گن کے کیمپس پر غزہ کے اظہار یکجہتی کے مظاہروں سے منسلک۱۱؍ افراد کے خلاف فوجداری الزامات عائد کیے تھے۔ ان میں سے زیادہ تر یونیورسٹی آف مشی گن کے طلبہ اور سابق طلبہ ہیں۔ تنقید کرنے والوں، بشمول فلسطینی حقوق کے حامیوں اور رکن کانگریس رشیدہ طلیب اور اے سی ایل یو مشی گن، کا کہنا تھا کہ یہ الزامات زیادتی ہیں، جو فلسطین کی حمایت میں سرگرمیوں کو دبانے اور آزادی اظہار اور اجتماع کے پہلے ترمیمی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کے مترادف ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: ٹرمپ انتظامیہ کی غیر قانونی تارکین وطن کوازخود جلاوطنی کیلئے ۱۰۰۰؍ ڈالر کی پیشکش
نیسل نے کہا کہ’’ مہینوں کی عدالتی سماعتوں کے باوجود، عدالت نے ابھی تک یہ فیصلہ نہیں کیا ہے کہ آیا الزامات ثابت ہوئے ہیں یا نہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ یہ معاملہ تنازع کا مرکز بن گیا ہے، جبکہ ابھی یہ فیصلہ باقی ہے کہ آیا مقدمہ ٹرائل تک لے جایا جائے گا یا نہیں۔‘‘ انہوں نے الزام لگایا کہ بے بنیاد اور مضحکہ خیز تعصب کے الزامات‘‘ اور ’’سرکس جیسے ماحول نے مقدمے کو کمزور کر دیا ہے۔‘‘ انہوں نے ملزم کے وکلاء کی جانب سے دائر کردہ ایک حالیہ دستبرداری کی درخواست کو توجہ ہٹانے کی حکمت عملی قرار دیا اور کہا کہ عدالت کو بھیجاگیا ایک عوامی بیان، جو ان کے دفتر کی حمایت میں تھا، نے معاملے کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ ‘‘ اگرچہ انہوں نے اپنے الزامات پر قائم رہتے ہوئے کہا کہ’’ وہ ایک معقول جیوری کو ملزمان کو مجرم قرار دینے کا یقین رکھتی ہیں‘‘، لیکن انہوں نے کہا کہ ’’میں اب ان مقدمات کو اپنے محکمے کے وسائل کا دانشمندانہ استعمال نہیں سمجھتی، اور اس لیے میں نے ان مقدمات کو ختم کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
الزامات ختم ہونے پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے، طلبہ کی دفاعی ٹیم کے رکن جمیل خوجہ نے کہا، ’’ یہ ہیرو اپنی جگہ پر ڈٹے رہے اور ریاست کے سب سے طاقتور قانون نافذ کرنے والے افسر کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا، جو انہیں جیل میں ڈال کر ان کے مستقبل کو سنگین جرائم کے ساتھ خراب کرنا چاہتا تھا۔‘‘ کونسل آن امریکن-اسلامک ریلیشنز (کیئر-مشی گن) نے یونیورسٹی آف مشی گن میں ۲۰۱۴ءکے پرامن فلسطینی کیمپ کے احتجاج میں شامل سات طلبہ اور کمیونٹی ممبران کے خلاف سنگین الزامات کے خاتمے کو خوش آمدید کہا۔ تنظیم نے اٹارنی جنرل کے دفتر پر زور دیا کہ وہ فوری طور پر تمام چھوٹے موٹے داخلے کی خلاف ورزی کے الزامات بھی ختم کر دے، جن کے بارے میں تنظیم کا خیال ہے کہ یہ ’’سیاسی طور پر محرک‘‘ ہیں اور فلسطینی انسانی حقوق کی وکالت کرنے والوں کے خلاف تعصب پر مبنی ہیں۔
یہ بھی پڑھئے: امریکہ اور ایران کے درمیان مذاکرات کے ساتھ دھمکیوں کا دور بھی
تحریک اتحاد، جو ۹۰؍ سے زیادہ فلسطین نواز طلبہ تنظیموں پر مشتمل ہے، بشمول ’’اسٹوڈنٹس الائیڈ فار فریڈم اینڈ ایکویلیٹی‘‘ ، نے ایکس پر لکھا، ’’ یہی ہوتا ہے جب ہم مزاحمت کرتے ہیں اور خوفزدہ ہونے سے انکار کرتے ہیں۔ فلسطین کو آزاد کرو۔ تمام سیاسی قیدیوں کو رہا کرو۔‘‘ واضح رہے کہ غزہ میں اسرائیلی نسل کشی کے خلاف اختلاف رائے کو دبانے کیلئے پولیس کارروائی کوئی نئی بات نہیں ہے؛ یہ یونیورسٹی آف مشی گن میں ایک معمول بن چکا ہے۔ اس سے قبل، اہلکاروں نے ’’ڈائی ان ‘‘ مظاہرے میں حصہ لینے والوں پر حملہ کیا، افراد کو زمین پر گرا دیا، اور چار افراد کو گرفتار کر لیا، جن میں ایک نابالغ بھی شامل تھا۔اس کے علاوہ صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے جنوری ۲۰۱۵ء میں عہدے سنبھالنے کے بعد سے، ان کی انتظامیہ کے ذریعے امریکی کالج کیمپسوں پر فلسطین کی حمایت میں سرگرم طلبہ اور اسکالرز کو نشانہ بنانا شدت اختیار کر گیاہے۔