Inquilab Logo Happiest Places to Work

امریکہ: سپریم کورٹ نےٹرمپ کے تارکین وطن کو تیسرے ملک بھیجنے کی راہ ہموار کردی

Updated: June 24, 2025, 10:06 PM IST | Washington

امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ کے تارکین وطن کو تیسرے ملک بھیجنے کے منصوبے کی راہ ہموار کردی، لیبرل ججوں نے انتباہ دیا کہ فیصلہ تارکین وطن کو خطرے میں ڈال سکتا ہے ۔

Photo: X
تصویر: ایکس

امریکی سپریم کورٹ نے ٹرمپ انتظامیہ کو تارکین وطن کو فوری طور پر تیسرے ممالک بھیجنے کی اجازت دے دی ہے، چاہے وہ ممالک ان تارکین وطن کے آبائی ممالک ہی کیوں نہ ہوں۔تفصیلی وضاحت کے بغیر جاری کردہ اس فیصلے نے زیریں عدالت کے اس حکم کو کالعدم کردیا جس نے عارضی طور پر انہیں بھیجنے کے عمل کو روک رکھا تھا۔کورٹ کی قدامت پسند اکثریت نے اپنے استدلال کی وضاحت نہیں کی، جو ہنگامی فیصلوں میں عام روایت ہے۔کورٹ کے تینوں لبرل ججوں نے اختلاف کیا، انہوں نے متنبہ کیا کہ اس فیصلے سے انسانی جانوں کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: سینیٹر برنی سینڈرز نے ایران اور عراق کی جنگ میں مماثلت بتائی

واضح رہے کہ یہ مقدمہ مئی کے ایک واقعے سے جڑا ہے جہاں امریکی حکام نے آٹھ غیر ملکی شہریوں (جو اصل میں میانمار، ویتنام اور کیوبا سے تعلق رکھتے تھے) کو سوڈان بھیجنے کے لیے طیارے میں سوار کر لیا، حالانکہ عدالت کا واضح حکم موجود تھا کہ انہیں اپنی رہائی کے خلاف چیلنج کرنے کا موقع دیا جائے۔امریکی ضلعی جج برائن ای مرفی نے فیصلہ دیا تھا کہ مناسب قانونی جائزے کے بغیر کسی شخص کو اس کے اپنے ملک کے علاوہ کسی اور ملک بھیجنا بین الاقوامی اینٹی ٹارچر قوانین کے تحت امریکہ کی قانونی ذمہ داریوں کی خلاف ورزی ہو سکتا ہے۔جج مرفی کے حکم کے جواب میں طیارے کو جبوتی میں واقع ایک امریکی نیول بیس پر موڑ دیا گیا، جہاں تارکین وطن کو عارضی قیام گاہ میں رکھا گیا۔سپریم کورٹ کا فیصلہ جج مرفی کی اس وسیع تر تشویش کو ختم نہیں کرتا کہ تارکین وطن کو یہ موقع ضرور دیا جائے کہ وہ ثابت کر سکیں کہ انہیں تیسرے ملک بھیجنے سے انہیں سنگین خطرات لاحق ہوں گے۔تاہم، اس فیصلے سے حکومت کو یہ اجازت مل گئی ہے کہ وہ قانونی کارروائی جاری رہنے کے دوران ایسی جلا وطنی دوبارہ شروع کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھئے: امریکہ: رہائی کے دوسرے دن محمود خلیل کی فلسطین حامی مظاہرے میں شرکت

سخت الفاظ میں لکھے گئے اپنے اختلافی نوٹ میں جسٹس سونیا سوتومایور نے خبردار  کیا کہ یہ فیصلہ ہزاروں افراد کو تشدد یا موت کے خطرے سے دوچار کر سکتا ہے۔سوتومایور نے۱۹؍ صفحات پر مشتمل اپنے اختلافی نوٹ میں لکھاکہ ’’حکومت نے الفاظ اور عمل دونوں میں واضح کر دیا ہے کہ وہ خود کو قانون سے بالاتر سمجھتی ہے، جسے کسی کو بھی بغیر نوٹس دیے یا موقع دیے کہیں بھی بھیجنے کی آزادی حاصل ہے۔‘‘ جسٹس ایلینا کاگن اور کیتنجی براؤن جیکسن نے بھی اس اختلافی رائےسے اتفاق کیا۔ٹرمپ انتظامیہ نے پانامہ اور کوسٹا ریکا سمیت کئی ممالک کے ساتھ معاہدے کیے ہیں کہ جب تارکین وطن کے اپنے ممالک انہیں واپس لینے سے انکار کر دیں تو وہ انہیں واپس لیں گے۔ایک الگ مقدمے میں، سپریم کورٹ نے پہلے ایل سلواڈور کو ڈیپورٹیشن روک دی تھیں جب تک کہ زیریں عدالتیں یہ طے نہ کر لیں کہ تارکین وطن کو قانونی شکایت درج کرنے کیلئے کتنا وقت دیا جانا چاہیے۔جج مرفی، جو بائیڈن کے مقرر کردہ ہیں، اس سے پہلے ایک اور نمایاں مقدمے میں مداخلت کر چکے ہیں جہاں انہوں نے ایک گوئٹے مالا کے شہری کو واپس لانے کا حکم دیا تھا جسے میکسیکو بھیج دیا گیا تھا جہاں اس کے مطابق اسے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔اس شخص کا عدالتی دستاویزات میں او جی سی کے نام سےمتعارف کرایا گیا ہے، جو خیال کیا جاتا ہے کہ ٹرمپ کی سخت امیگریشن پالیسی کے تحت جلاوطنی کے بعد امریکی تحویل میں واپس آنے والا پہلا تارک وطن ہے۔

urdu news Tags

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK