Inquilab Logo

امریکہ: ہندوستانی اور ہند نژاد شہریوں کے قتل کا سلسلہ دراز، ہوٹل مالک کا گولی مار کر قتل

Updated: February 15, 2024, 9:10 PM IST | Washington

گزشتہ چند ماہ میں امریکہ میں مقیم ہندوستانی اور ہند نژاد شہریوں کے خلاف تشدد میں اضافہ ہوا ہے۔ کئی ہندوستانی افراد مشکوک حالات میں مردہ پائے گئے ہیں جبکہ بعض معاملات ایسے ہیں جن میں انہیں باقاعدہ نشانہ بنایا گیا ہے۔ حالیہ واردات میں ایک امریکی نے ایک ہوٹل کے ہندوستانی مالک کا گولی مار کر قتل کردیا ہے۔ پولیس نے ملزم کو گرفتار کرلیا ہے۔

American police. Photo: INN
امریکی پولیس۔ تصویر: آئی این این

گزشتہ ہفتےامریکی ریاست الباما میں ہوٹل کے ایک معمر مالک کو گاہک نےکمرہ کے متعلق تنازع میں گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا جس کے بعد امریکی معاشرہ سکتے کے عالم میں تھا۔ ہل کریسٹ ہوٹل کے مالک پروین رائو جی بھائی کو شیفیلڈ میں گولی ما ر کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ 
خبروں کے مطابق شیفیلڈپولیس سربراہ رِکی ٹیری کے مطابق پٹیل کے قتل کے سلسلے میں ایک ۳۴؍ سالہ شخص جیریمی مورے کو ۸؍ فروری کو گرفتار کیا گیا ہے۔ حکام نے بتایا کہ یہ گولی باری اس تنازع کے وقت ہوئی جب مورے کرائے پر ایک کمرہ دیکھنے پہنچا۔ مورے نے بندوق نکالی اور پٹیل پر گولی چلا دی۔ انہوں نے کہا کہ شیفیلڈ پولیس نے ۱۳؍ ویں اوینیو پر قاتل کو اس وقت پکڑ لیا جب وہ ایک لاوارث گھر میں گھسنے کی کوشش کر رہا تھا۔ مورے کی تلاشی لینے پر اس کے قبضے سے قتل کا اسلحہ بھی بر آمد ہوا۔ 
شکایت کے مطابق گولی باری سے پہلے پٹیل نے مورے کو وہاں سے جانے کو کہا۔ مورے وہاں سے جانے کیلئے پلٹا لیکن دوبارہ مڑ کر اس نے پٹیل کے سینے میں دو گولی اتار دی۔ 
جیمریز اوینس جو سڑک پر کام کرنے والا حجام ہے، نے واردات کے بعد گواہی دی۔ اس نے کہا کہ ’’اس نے تین گولیوں کی آواز سنی۔ ‘‘اوینس نے کہا کہ ’’وہ گھبرا گیا تھا۔ وہ صرف اپنا کام کر رہا تھا۔ ‘‘
ایشین امریکن ہوٹل اونرس اسوسی ایشن نے ایک بیان جاری کر کے کہا کہ امریکی ہوٹل مالکان ایک چھوٹے کاروباری مالک کے خلاف تشدد کے اس بودہ عمل سے شدید غمزدہ، صدمے اور غم و غصے میں ہیں جس کے نتیجہ میں اس کی جان چلی گئی۔ 
اسو سی ایشن کے چیئرمین بھرت پٹیل نے کہا کہ ’’تشدد جیسی احمقانہ کارروائی کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں ہے۔ اور ہمارےدل پروین کی بیوی بچوں سمیت تمام اہل خانہ کیلئے رنجیدہ ہیں۔ کوئی بھی خاندان اس صدمہ کا احساس نہیں کر سکتا جو اس وقت پروین کا خاندان برداشت کر رہا ہے اور ہم ہر اس شخص سے اظہار تعزیت کرتے ہیں جو انہیں جانتا اور چاہتا ہے۔ ‘‘
 الباما کی ہوٹل مالکان کی اسو سی ایشن کے مقامی ڈائریکٹر سنجے ایم پٹیل نے کہا کہ ’’پروین پٹیل نے شیفیلڈ کے قصبے میں اس ہوٹل کے مالک کے طورپر چار دہائیوں سےزائد عرصہ گزارا۔ وہ ایک خاندانی، خوش مزاج، اور پر جوش تاجر تھے۔ ‘‘ بیان میں کہا گیا ہے کہ چونکہ وہ وہاں ۴۰؍ سال سے زائد عرصے سے رہتے تھے اس لئے قصبے میں ہر کوئی ان سے واقف تھا۔ اور ان کا خاندان سماج میں معتبر اور شفیق گردانا جاتا ہے۔ 
اسو سی ایشن نے امید ظاہر کی کہ الباما پولیس پٹیل خاندان کو انصاف دلانے میں پوری مدد کرے گی۔

امریکہ میں ہندوستانیوں کا قتل
حالیہ مہینوں میں امریکہ میں ہندوستانی یا ہندوستانی نژاد شہریوں کے قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
٭ پیر کو ایک ہند نژاد خاندان کے دو بچوں سمیت چار افراد کیلیفورنیا کے اپنے گھر میں مردہ پائے گئے تھے۔ پولیس اس معاملے کی خود کشی اور قتل کے زاویئے سے جانچ کر رہی ہے۔ 
٭ ۱۰؍ فروری کو ایک ۴۱؍ سالہ ہندوستانی نژاد آئی ٹی ایگزیکٹیو واشنگٹن میں ایک جان لیوا حملے میں زخموں کی تاب نہ لا کر انتقال کر گیا۔ 
٭ اس سے پہلے ایک ہندوستانی طالب علم سید مظاہر علی پر شکاگو میں چوروں نے حملہ کر دیا تھا۔ 
٭ اس سے قبل ۲۵؍ سالہ ایک طالب علم وویک ساہنی پر ایک بے گھر منشیات کے عادی شخص نے جان لیوا حملہ کیا تھا۔ 
٭ ایک اور طالب علم جس کی شناخت ۱۹؍ سالہ شریاس ریڈی کے نام سے ہوئی، اوہایو میں مردہ پایا گیا تھا حالانکہ اس واقعہ میں مقامی افراد نے کسی بھی طرح کے مجرمانہ زاویہ کو مسترد کر دیا تھا۔ 
٭ پر ڈیو یونیورسٹی میں ۲۳؍ سالہ ہند نژاد امریکی طالب علم سمیر کامت ۵؍ فروری کو انڈیانا کے فطری تحفظ گاہ میں مردہ پایا گیا تھا۔ 
٭ پر ڈیو یونیورسٹی کا مزید ایک ہندوستانی طالب علم جس کی شناخت نیل اچاریہ کے طور پر ہوئی، اس کی گمشدگی کی رپورٹ ۲۸؍ جنوری کو درج کی گئی تھی اور ایک دن بعد اس کی موت کی تصدیق ہوئی۔ 
٭ اس کے علاوہ یونیورسٹی آف الینوائس اربانا۔ شیمپئن کا ایک ۱۸؍سالہ طالب علم اکل بی دھون گزشتہ ماہ ہائی پو تھرمیہ کی علامت کے ساتھ مردہ پایا گیا تھا۔

(پی ٹی آئی)

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK