چند روز قبل تمام’’ غیر قانونی غیر ملکیوں‘‘ کیلئے تمام ریاستوں میں حراستی مراکز قائم کرنے کی وزارت داخلہ کی ہدایت کے بعد ملک گیر ایس آئی آر نے چور دروازہ سے این آر سی نافذ کرنے کے اندیشوں کو تقویت دی، الیکشن کمیشن یکم جنوری سے ملک بھر میں ’’جامع ووٹر نظرثانی‘‘کا آغاز کرسکتاہے
چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمارجن پر الزام ہے کہ انہوں نے کمیشن کا وقار داؤ پر لگادیا۔ تصویر: آئی این این
بہار میں ووٹر لسٹ کی ’’خصوصی جامعہ نظر ثانی‘‘(ایس آئی آر) کے خلاف اپوزیشن کے شدید احتجاج اور اسے ’’ووٹ چوری‘‘ کا حربہ قرار دینے کے باوجود الیکشن کمیشن نچلا بیٹھنے کو تیار نہیں ہے۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار نے بدھ ۱۰؍ ستمبر کو تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کے چیف الیکٹورل آفیسرس کی میٹنگ طلب کی ہے جس میں ملک گیر ایس آئی آر کے تعلق سے غوروخوض کیا جائےگا۔ ذرائع کے مطابق الیکشن کمیشن یکم جنوری ۲۰۲۶ء سے پورے ملک میں ’’ایس آئی آر‘‘ کا آغاز کرسکتاہے۔ اس مہم کے ووٹرس کو اپنے ہندوستانی ہونے کا ثبوت فراہم کرنا ہوگا۔ ۵؍ روز قبل مرکزی وزارت داخلہ نے تمام ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں کو ’’غیر قانونی طورپر مقیم غیر ملکیوں‘‘ کیلئے حراستی مراکز قائم کرنے کی ہدایت دی ہے۔ ایس آئی آر کو وزارت داخلہ کے مذکورہ حکم سےجوڑ کر دیکھا جارہاہے جو اس اندیشہ کو تقویت فراہم کرتا ہے کہ الیکشن کمیشن کے توسط سےچور دروازہ سے ’این آر سی‘ نافذ کی جارہی ہے۔
اپوزیشن کی سیاسی جماعتیںاس کی سخت مخالفت کررہی ہیں۔سپریم کورٹ نے بھی اپنے مشاہدہ میں کہا ہےکہ الیکشن کمیشن کا کام کسی کی شہریت کے تعین کا نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اپوزیشن اور حکمراں جماعت کے درمیان اس مسئلہ پر ٹکراؤ میں مزید شدت کا امکان ہے۔ آئندہ سال مغربی بنگال،آسام، تمل ناڈو ، کیرالا اور پدوچیری میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔ گمان غالب ہے کہ ’’ایس آئی آر‘‘ کے ذریعہ اپوزیشن حامی ووٹرس کے نام کاٹے جائیں گے۔
بہار میں ووٹر لسٹ کی خصوصی نظر ثانی مہم سےمتعلق ۲۴؍ جون کے اپنے حکم میں ہی الیکشن کمیشن نے ملک گیر ایس آئی آر کرانے کا فیصلہ کیا تھا۔ الیکشن کمیشن کو اس معاملہ میں سپریم کورٹ کے رخ کا انتظار تھا جہاں اسے بہار میں اس مشق کیلئے کسی رکاوٹ کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ حالانکہ الیکشن کمیشن کو کئی مواقع پر سپریم کورٹ کے ذریعہ بہار میں حذف کئےگئے ۶۵؍لاکھ لوگوں کے نام شامل کرنے کیلئےاقدامات کی ہدایت دی گئی۔ ذرائع کے حوالہ سے یہ کہا جارہاہے کہ اب تمام چیف الیکٹورل آفیسرز سے کہا گیاہے کہ وہ ۱۰؍ستمبر کو اپنی ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں رائے دہندگان کی تعداد، آخری بار ووٹرلسٹ پر گہرائی کے ساتھ کی جانے والی نظر ثانی سے متعلق تفصیلات پیش کریں، اس کے بعد کوئی حکم جاری کیا جائےگا۔ چیف الیکشن کمشنر گیانیش کمار اور الیکشن کمشنرز سکھبیر سنگھ سندھو اور وویک جوشی تمام ریاستوں کے چیف الیکٹورل آفیسرز سے ملاقا ت کریں گے۔ ۲۴؍جون کے اپنے حکم میں الیکشن کمیشن نے کہا تھاکہ ووٹرلسٹ کی جامع نظر ثانی آخری بار۲۰۰۳ء میں کی گئی تھی اور نقل مکانی کی وجہ سے ووٹرلسٹ میں بار بار اندراجات کا امکان ہے۔حکم میں کہا گیاکہ اس طرح کی صورتحا ل میں ہر شخص کے انتخابی اندراج سے پہلے اس کی گہرائی سے جانچ کی ضرورت ہے۔ووٹرلسٹ میں سرسری طورپر نظر ثانی ہر سال اور ہر الیکشن سے پہلے کی جاتی ہے،لیکن اس بارالیکشن کمیشن نے نئے سرے سےووٹرلسٹ تیار کرنے کا فیصلہ کیاہے۔ اس نے ووٹرلسٹ میں نام اندراج کیلئے ۱۱؍ دستاویزات طلب کئے جن میں آدھار،ووٹر آئی ڈی کارڈ اور راشن کارڈ کو تسلیم نہیں کیا گیا۔تاہم سپریم کورٹ نے واضح طورپر ہدایت دی ہے کہ آدھار کارڈ کو بطور دستاویز قبول کیا جائے۔
حالانکہ یہ بھی خبریں ہیں کہ سپریم کورٹ کے واضح حکم کے باوجود ریاست میں بی ایل اوز آدھار کارڈ کو بطور دستاویز قبول کرنے میں تردد کااظہار کررہے تھے۔الیکشن کمیشن نے بہا رمیں جن لوگوں کے نام کو ووٹرلسٹ سے حذف کیا،ان میں سے کئی ایسے لوگ بھی سامنے آئے جو زندہ تھے،حالانکہ انہیں کمیشن کے ریکارڈ میں مردہ قرار دیا گیا۔سیاسی جماعتوں نے بہار میںڈرافٹ ووٹر لسٹ میں دعوے اور اعتراضات کی میعاد میں اضافہ کا مطالبہ کیاتھا،اس پر کمیشن نے سپریم کورٹ کا بتایا کہ ڈرافٹ ووٹر لسٹ پر دعوے اور اعتراضات یکم ستمبر کےبعد بھی قبول کئے جائیں گے،لیکن ان پر غور صرف اس وقت کیا جائےگا جب حتمی لسٹ تیار کرلی جائےگی۔