ہائی کور ٹ نے حکم دیا کہ ایس آر کے تحت فلیٹ خریدنے والا اگر ۵؍ سال سے پہلے اسے فروخت کرتا ہے تو مالک کو بے دخل کرکے فلیٹ قبضہ میںلے لیاجائے، کورٹ نے ایس آر اے کومقبوضہ فلیٹ اس ضرورت مند ایس آر اے پروجیکٹ متاثر کو دینے کا بھی حکم دیا ہے جو برسوں سے کرایہ کے مکان میں رہنے پر مجبور ہو.
ایس آر اے کے تحت جھوپڑپٹی کے مکینوں کی بازآبادکاری کی جاتی ہے۔ تصویر: آئی این این
کچی آبادی یا پرانی چالوں اور دو اور تین منزلہ عمارتوں میں چھوٹے مکانات میںرہنے والے اکثر مکین ایس آر اے کے تحت بننے والی بلڈنگوں میں ملنے والے فلیٹوں میں نہیں رہتے اور انہیں فروخت کر کے دوبارہ کچی آبادیوں اور چالوں میں منتقل ہوجاتے ہیں اور بہت سے ایسے ہیں جو اہل نہ ہونے کے باوجود مذکورہ اسکیم میں غیر قانونی طور پر قبضہ کرلیتے ہیں۔ اب ایس آر اے کے تحت مکان حاصل کرنے والوں کو بامبے ہائی کورٹ نے متنبہ کیا ہے اورایس آر اے اتھاریٹی کو ۵؍ سال سے پہلے فلیٹ فروخت کرنے کی کوشش کرنے والے مکینوں کو فلیٹ سے بے دخل کر نے کا حکم دیا ہے ۔
سائن کولی وارڑہ ایس آر اے اسکیم کے تحت بنائی گئی بلڈنگ میں غیر قانونی طریقہ سے فلیٹ ٹرانسفر کرنے کے معاملہ میں جب ایس آر اے اتھاریٹی نے بامبے ہائی کورٹ کو مطلع کیا تو کورٹ نے سرزنش کرتے ہوئے صرف مذکورہ بالا معاملہ میں ہی نہیں بلکہ ایس آر اے کے تحت دیئے جانے والے فلیٹوں اورطے شدہ مدت سے قبل انہیں فروخت کئے جانے کی ضمن میں تفصیلی حلف نامہ داخل کرنے کا حکم دیا ۔ دوران سماعت بامبے ہائی کورٹ کی دو رکنی بنچ کے جسٹس گریش کلکرنی اور جسٹس آرتی ساٹھے کو بتایا گیا کہ نرمل نگر ہاؤسنگ سوسائٹی میں کچی آبادی میں رہنے والے ۸۰۴؍ مکینوں کو فلیٹ دیا گیا تھا ۔ ان میں سے ۵۰؍ فیصد سے زائد یعنی ۴۱۰؍ مکینوں نے فلیٹ فروخت کر دیا ہے ۔
عرضداشت گزار کے وکیل شکیل احمد نے کورٹ کو بتایا کہ دسمبر ۲۰۱۴ء میں تحصیلدار کی رپورٹ کے مطابق ایس آر اے کے تحت فلیٹ حاصل کرنے والے ۴۱۰؍ افراد ایسے ہیں جو ایس آر اے کے تحت فلیٹ حاصل کرنے کے اہل ہی نہیں تھے۔ وکیل نے یہ بھی بتایا کہ جن ۸؍ سو سے زائد لوگوں کو فلیٹ کاجزوی قبضہ سرٹیفکیٹ کے ساتھ دیا گیا تھا ان میں سے ۴؍ سو سے زائد نے فلیٹ فروخت کر دیا ہے۔اس پر دو رکنی بنچ نے ایس آر اے اتھاریٹی کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ’’ اگر درخواست گزار نے جو تفصیلات فراہم کی ہیں ، وہ صحیح ہیں تو یہ انتہائی سنگین مسئلہ ہے اور اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اتھاریٹی کے پاس اسکیموں کے تحت دیئے گئے فلیٹوں پر قانونی طورپر کوئی کنٹرول نہیں ہے ۔‘‘
مذکورہ بالا معاملہ میں لاٹری کے ذریعہ ملنے والے گھرکے الاٹمنٹ کو ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا ہے ۔دو رکنی بنچ نے مسئلہ کی سنگینی کو دیکھتے ہوئے ایس آر اے کے سی ای او کو مذکورہ معاملہ میں جانچ کرنے کا حکم دینے کے علاوہ اس بات پر بھی برہمی کا اظہار کیا کہ اتنے بڑے پیمانے پر غیر قانونی طریقہ سے فلیٹوں کو فروخت کیا جارہا ہے اور انتظامیہ نے اپنی آنکھیں موندرکھی ہیں۔ انہوںنے جہاں یہ فرمان جاری کیا کہ ایس آر اے کے تحت دیئے جانے والے مکانات ۵؍ سال سے قبل نہیں فروخت کئے جاسکتے وہیں فلیٹ فراہم کرتے وقت کچی آبادی میں رہنے والوں کی اہلیت اچھی طرح جانچنے اور ۵؍ سال سے قبل اگر کوئی فلیٹ فروخت کرتا ہے تو انہیں بے دخل کرنے کا فرمان بھی جاری کیا ہے۔
اس ضمن میں کورٹ نے اہم فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا ’’ ۵؍ سال سے پہلے فلیٹ فروخت کرنے والوں کے جو فلیٹ حاصل کئے جائیں گے ، ایس آر اے اتھاریٹی ان فلیٹوں کو ایس آر اے کے تحت التواء کا شکار پروجیکٹوں کے متاثرین کے نام منتقل کر دے ۔ دو رکنی بنچ نے یہ بھی کہا کہ ایس آر اے کے تحت دیئے جانے والے فلیٹوں پر غیر قانونی قبضہ کرنے اور ۵؍ سال سےپہلے فلیٹ فروخت کرنے والوں پر قدغن لگانے کے لئے سخت قدم اٹھانا ضروری ہے ، اس لئے اس پر سختی سے عمل کیا جائے ۔ کورٹ نے ایس آر اے کے چیف ایگزیکٹیو آفیسر کو اس ضمن میں تفصیلی رپورٹ فراہم کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت کو یکم اکتوبر تک ملتوی کردی۔