• Sat, 22 November, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

اُردو میں بی جے پی کے انتخابی پمفلٹ پر اعتراض کیوں؟

Updated: November 22, 2025, 2:25 PM IST | Inquilab News Network | Uran

اس اعتراض کے ذریعہ معترضین خود اُردو کو الگ تھلگ کرنے والوں میں شامل ہورہے ہیں۔ اُرن، رائے گڑھ میں مسلم رائے دہندگان کو رجھانے کیلئے بی جے پی نے اردو میں اشتہاری پرچے چھپوائے ہیں۔ بی جے پی مسلمانوں اور اردو کے تئیں سوتیلا رویہ اختیار کرنے کیلئے مشہور ہے لیکن سیاسی فائدے کیلئے ہی سہی اس کے ذریعہ اردو کے استعمال پر لوگ خوش ہیں۔ 

Pamphlet in Urdu of BJP`s program for the Aran Nagar Parishad elections. Photo: INN
ارن نگرپریشد الیکشن کیلئے بی جے پی کے پروگرام کا اردو میں پمفلٹ۔ تصویر:آئی این این
 اُرن، رائے گڑھ میں مسلم رائے دہندگان کو رجھانے کیلئے بی جے پی نے اردو میں اشتہاری پرچے چھپوائے ہیں۔ بی جے پی مسلمانوں اور اردو کے تئیں سوتیلا رویہ اختیار کرنے کیلئے مشہور ہے لیکن سیاسی فائدے کیلئے ہی سہی اس کے ذریعہ اردو کے استعمال پر لوگ خوش ہیں۔ 
بی جے پی کے ذریعہ اردو میں پمفلٹ شائع کروانے پر اے آئی ایم آئی ایم، ایم این ایس اور کانگریس نے بھگوا پارٹی پر موقع پرستی کی سیاست کرنے کا الزام عائد کیا ہے اور سوال اٹھایا ہے کہ کیا یہی ان کا کٹر ہندوتوا ہے۔ البتہ اعتراض کرنے والوں کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ کیا اس سے اردو زبان کو فروغ نہیں مل رہا اور وہ اعتراض کرکے اردو کو الگ تھلگ کرنے والوں میں شامل نہیں ہورہے۔
جمعہ، ۲۱؍ نومبر کو ارن نگر پریشد کیلئے انتخابی جلسہ اور مسلمانوں کے ووٹ حاصل کرنے کیلئے بی جے پی نے یہاں اپنے ۳؍ امیدواروں کی تصاویر کے ساتھ اردو میں پرچے تقسیم کرواکر ان امیدواروں کو ووٹ دینے کی درخواست کی تھی۔
اس پر رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے ممبئی یونیورسٹی کے پروفیسر قمر صدیقی نے کہا کہ ’’کوکن کے پورے خطہ میں لوگوں کو اردو سے غیر معمولی محبت ہے۔ میرا پورے ہندوستان میں سفر ہوتا رہتا ہے لیکن اردو سے اتنی محبت مجھے اور کہیں نظر نہیں آتی یہی وجہ ہے کہ اُرن میں انہوں نے تشہیری مہم میں اردو میں اپنا پرچہ وغیرہ شائع کروایا۔ میرے خیال سے کانگریس ہو یا بی جے پی کسی پارٹی سے فرق نہیں پڑتا، فرق پڑتا ہے کہ اردو والے اس زبان کو استعمال کرنے لگیں اس کے فروغ کی کوششیں کریں تب لوگ مجبور ہوکر اردو میں اپنی بات پہنچانے کی کوشش کریں گے جیسا کہ ارن میں ہوا۔ ممبئی میں ہمارے جو اردو کے علاقے ہیں وہاں لوگ اپنی دکانوں وغیرہ کے بورڈ اردو میں لگانے پر خصوصی توجہ دیں یا جو بڑی کمپنیاں ہیں اگر آپ ان کے گاہک ہیں اور جب کبھی ان کے شو روم یا دکانوں پر جائیں تو ان کے نمائندوں سے یہ بات کہیں کہ ہمیں آپ کے اشتہار اردو میں نظر نہیںآتے تو اس کا اچھا اثر پڑ سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’یہ بیداری اردو والوں میں ہونا ضروری ہے جو ارن کے لوگوں میں موجود ہے۔ میں نہیں سمجھتا یہ کوئی سیاسی موضوع ہے سیدھا سیدھا معاملہ یہ ہے کہ ہم اردو کو کتنا چاہتے ہیں وہ بتائیں سب کو تب لوگ بھی مجبور ہوجائیں گے اردو استعمال کرنے کیلئے۔‘‘
اردو مرکز کے ڈائریکٹر ایڈوکیٹ زبیر اعظمی نے کہا کہ ’’کوئی بھی اردو کیلئے کچھ کرے تو یہ اچھی بات ہے۔ البتہ صرف سیاست کیلئے اردو استعمال کرنے کے علاوہ اگر مستقبل میں بھی اردو کو پارٹی یاد رکھے تو یہ خوش آئند بات ہوگی۔ جہاں اردو میں اشتہاری پرچے شائع کروائے گئے ہیں ظاہر ہے وہاں اردو جاننے والے ہوں گے، اگرچہ سیاست کیلئے اردو کو یاد کیا جارہا ہے لیکن ہم تو اس کو بھی منع نہیں کریں گے لیکن کوئی فرد ہو یا سیاسی پارٹی ہو ،ہم سب سے یہی درخواست کریں گے کہ وہ اردو کے فروغ کیلئے کچھ اقدام ضرور کریں۔‘‘
سوشل میڈیا پر مذکورہ پمفلٹ کی تصویر شیئر کرکے رکن اسمبلی رئیس شیخ نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ’’میونسپل کارپوریشن اور نگر پریشد الیکشن میں بی جے پی کے ذریعہ اردو کے استعمال کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ یہ دیکھ کر اچھا لگا کہ بھگوا پارٹی اپنے نمائندوں کی تشہیر کیلئے اردو میں پمفلٹ چھپوا رہی ہے۔ بالآخر بی جے پی کی سمجھ میں آگیا کہ اردو کسی ایک مذہب کی زبان نہیں ہے۔‘‘ البتہ انہوں نے یہ طنز بھی کیا کہ ’’بی جے پی مذہب کی بنیاد پر نفرت کی سیاست کرتی ہے اور جب مسلمانوں کے ووٹوں کی ضرورت پیش آتی ہے تو اسے اردو یاد آتی ہے۔ یہ اس کا دوغلا پن ہے۔‘‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK