• Fri, 05 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

کیا سچ مچ میونسپل الیکشن کے بعد مہایوتی میں پھوٹ پڑ جائے گی یا یہ دکھاوا ہے؟

Updated: December 05, 2025, 1:46 PM IST | Inquilab News Network | Mumbai

میونسپل الیکشن کی تشہیر ی مہم کے دوران جس طرح مہایوتی میں شامل پارٹیاں آپس میں حملہ آور دکھا ئی دیں ، مہاوکاس اگھاڑی کی پارٹیاں ویسے آپس میں نہیں لڑ رہی ہیں

Fadnavis, Shinde and Pawar: What to do? Keep the relationship or end it? Photo: INN
فرنویس ، شندے اور پوار: کیا کریں؟ تعلقات رکھیں یا ختم کر دیں؟ تصویر:آئی این این
مہاراشٹر کے میونسپل الیکشن میں یوں تو تمام پارٹیاں بیک وقت ایک دوسرے کے خلاف اور ایک دوسرے کے ساتھ ہیں لیکن مہایوتی میں جس قدر تلخی یا کڑواہٹ نظر آ رہی ہے اتنی مہاوکاس اگھاڑی کی پارٹیوں میں نظر نہیں آرہی ہے۔ بلکہ مہایوتی کے کچھ لیڈران تو اتحاد ختم کردینے کی بات بھی کر چکے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ سب کچھ صرف میونسپل الیکشن میں ایکدوسرے کے خلاف عوام کا ووٹ حاصل کرنے کیلئے ہے یا پھر الیکشن بعد بھی یہ مخاصمت برقرار رہے گی؟ کیا مہایوتی واقعی میونسپل الیکشن کے بعد ( جیسا کہ کہا جا رہا ہے ) ختم ہو جائے گی؟ 
یاد رہے کہ میونسپل الیکشن میں کئی مقامات پر مہایوتی اور مہا وکاس اگھاڑی میں شامل پارٹیوں نے اتحاد کی حدود سے باہر نکل کر اپنی مخالف پاٹیوں سے ہاتھ ملایا۔ جیسے کئی مقامات پر شرد پوار کی این سی پی اور اجیت پوار کی این سی پی نے مل کر الیکشن لڑا۔ بعض مقامات پر ایک دوسرے کے کٹر دشمن شیوسینا (ادھو) ور شیوسینا( شندے) ایک ہو گئے۔ جبکہ بعض حلقوں میں شندے کی شیوسینانے کانگریس سے ہاتھ ملا لیا۔ حتیٰ کہ کولہا پور کی ایک میونسپل کونسل میں کانگریس اور بی جے پی بھی ایک ہو گئے لیکن اگر آپ انتخابی مہم کے دوران میڈیا رپورٹ پر دھیان دیں تو معلوم ہوگا کہ مہا وکاس اگھاڑی کی پارٹیوں یعنی کانگریس، این سی پی (شرد) ور شیوسینا (ادھو) نے ایک دوسرے کے خلاف کوئی بیان بیازی نہیں کی۔ بلکہ انہوںنےمہایوتی والوں کے خلاف بھی بہت کم زبان کھولی۔ صرف شیوسینا (ادھو) نے ایکناتھ شندے کی پارٹی کو وقتاً فوقتاً نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ لیکن مہایوتی میں شامل تینوں ہی پارٹیوں نے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا۔ 
شیوسینا(شندے) کے وزراء کا کابینہ میٹنگ کا بائیکاٹ کرنا ، پھر نیلیش رانے کا سندھو درگ میں بی جے پی کارکن کے گھر اسٹنگ آپریشن اور گاڑی سے نقدی برآمد کروانا، اسی طرح کا ایکناتھ شندے ڈھانو میں یہ کہنا کہ ’’ ہم سب تکبر کے خلاف متحد ہوئے ہیں، راون کی لنکا بھی تکبر ہی کے سبب جل کر خاک ہوئی تھی۔‘‘ اور تو اورخود وزیر اعلیٰ کا شندے کے بیان پر جواب دینا کہ ’’ لنکا تو اس بار ہم جلائیں گے۔‘‘ ان سارے واقعات سے لگتا ہے کہ مہایوتی میں ان دنوں گھمسان مچا ہوا ہے۔  اور یہ کھل کر ایک دوسرے کا مقابلہ کر رہے ہیں۔ اس پر جب نیلیش رانے نے الزام لگایا کہ رویندر چوہان جب بھی سندھو درگ آتے ہیں تو پیسوں سے بھرا بیگ لے کر آتے ہیں جو ووٹروں میں تقسیم کیا جاتا ہے، تو جواب میں رویندر چوہان نے کہہ دیا کہ ’’ مجھے ۲؍ دسمبر تک مہایوتی قائم رکھنی ہے اس لئےمیں چپ ہوں۔ ابھی کچھ نہیں کہوں گا۔‘‘ اس پر میڈیا میں ہنگامہ مچ گیا کہ کیا ۲؍ دسمبر کے بعد مہایوتی ٹوٹ جائے گی؟
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مہایوتی کے اندر کچھ ناراضگیاں ہیں۔ کئی مواقع ایسے آئے جب بی جے پی نے شیوسینا(شندے) کو اعتماد میں لئے بغیر فیصلہ کرلیا بلکہ اسے نقصان پہنچایا۔ جیسے عثمان آباد میں ایک سرکاری پروجیکٹ جس کیلئے نگراں وزیر کی اجازت کی ضرورت تھی اسے بی جے پی کارکنان نے دبائو ڈال کر ضلع کلکٹر سے منظور کروا لیا۔ عثمان آباد کے نگراں وزیر پرتاپ سرنائیک ہیںجن کا تعلق شیوسینا (شندے) سے ہے۔ ان کی ناراضگی فطری بات ہے۔ رائے گڑھ میں بھرت گوگائولے کے بجائے ادیتی تٹکرے کو نگراں وزیر بنایا گیا جبکہ گوگائولے سینئر ہیں۔ ادیتی کا کارنامہ صرف یہ ہے کہ وہ سنیل تٹکرے کی بیٹی ہیں۔ پھر ایکناتھ شندے کے بیٹے شری کانت شندے کے حلقے میں کئی اہم شیوسینکوں کو توڑ کر بی جے پی میں شامل کر لیا گیا، اس سے شندے گروپ میں ناراضگی ہے۔ اسی لئے انہوں نے کابینہ میٹنگ کا بائیکاٹ بھی کیا تھا لیکن اس سے کچھ حاصل نہیں ہوا۔مراٹھی میڈیا نے ہر بار ایکناتھ شندے اور ان کے ساتھیوں کی ناراضگی کو ’ناراضی ناٹیہ‘ ( ناراضگی کا ڈرامہ) ہی لکھا یعنی یہ ناراضگی اگر سچ بھی ہے تو ایسی نہیں ہے کہ شندے گروپ کوئی ٹھوس قدم اٹھائے گا۔    
درمیان میں کئی طرح کی افواہیں بھی اڑیں کہ ایکناتھ شندے ، این سی پی کے بانی شرد پوار سے اتحاد کرنے والے ہیں، کبھی خبر آئی کہ وہ سونیا گاندھی سے ملاقات کرنے والے ہیں لیکن یہ ساری غیر مصدقہ خبریں ہیں۔اصل صورتحال یہ ہے کہ بی جے پی اور شیو سینا (شندے) نے ایک دوسرے کے خلاف جو ’اعلان جنگ‘ جیسی صورتحال پیدا کر رکھی ہے وہ صرف عوام  کے ذہن میں یہ بات ڈالنے کیلئے ہے کہ میونسپل الیکشن میں ان کا آمنا سامنا بناوٹی نہیںہے بلکہ وہ سچ مچ ایک دوسرے کے خلاف ہیں۔ تاکہ کسی ایک طبقے کے ووٹ مہایوتی کے سبب نہ ملنے والے ہوں تو وہ بھی مل جائیں۔  وہ نہیں چاہتے کہ مہایوتی کے تئیں عوام میں جو ناراضگی ہے وہ تینوں پارٹیوں کو بھگتنی پڑے۔ ممکن ہے کہ تینوں کے الگ الگ لڑنے سے عوام کا رویہ ان کے ساتھ کچھ اور ہو۔اس لئے یہ کہنا جلد بازی بلکہ خام خیالی ہوگی کہ میونسپل الیکشن کے بعد مہایوتی میں کسی پھوٹ یا انتشار کا امکان ہے۔ شیوسینا(شندے) میں اتنی ہمت نہیں ہے ، نہ ہی ایسی صورتحال ہے کہ وہ بی جے پی سے اتحاد ختم کرکے اقتدار حاصل کر سکیں اس لئے انہیں کسی طرح ۵؍ سال تک بی جے پی کے ساتھ رہنا ہی ہے۔  یہ الگ بات ہے آگے کوئی غیر معمولی بات ہو جائے یا بی جے پی خود ہی انہیں اپنے ساتھ نہ رکھنا چاہے۔ فی الحال اس کی بھی کوئی وجہ دکھائی نہیں دیتی۔   

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK