Inquilab Logo Happiest Places to Work

’’تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے‘‘، روسی حکمت عملی ساز دمتری ترینن کا دعویٰ

Updated: July 16, 2025, 12:52 PM IST | Agency | Moscow

دمتری ترینن کے مطابق یہ جنگ بندوقوں اور ٹینکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں سائبر حملے اور معاشی پابندیاں جیسے کئی زاویے شامل ہیں۔

Russian strategist Dmitry Ternin. Photo: INN
روسی حکمت عملی ساز دمتری ترینن۔ تصویر: آئی این این

روس سے تعلق رکھنے والے ایک ماہر حکمت عملی ساز اور جیو-پالیٹیکل ایکسپرٹ دمتری ترینن نے دعویٰ کیا ہے کہ خاموشی کے ساتھ تیسری عالمی جنگ شروع ہو چکی ہے۔  انہوں نے اپنے اس دعویٰ کی تشریح کرتے ہوئے کہا کہ یہ جنگ بندوقوں اور ٹینکوں تک محدود نہیں ہے بلکہ اس میں سائبر حملے، معاشی پابندیاں، ڈیجیٹل نگرانی اور نظریاتی پولرائزیشن جیسے کئی زاویے شامل ہیں۔ دمتری ترینن نے دنیا کے کئی ممالک میں ہو رہی جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ (تیسری عالمی) جنگ الگ الگ بر اعظموں میں، الگ الگ شکلوں میں لڑی جا رہی ہے۔ کئی تہذیبوں کے درمیان تصادم جیسا ماحول بن گیا ہے۔ مغربی اتحاد ایک طرف ہے اور روس،چین اورایران جیسی یوریشین طاقتیں دوسری طرف۔  انہوں نے اس تعلق سے ایک تھیوری پیش کی کہ اب غور کرنے والی بات یہ ہے کہ آخر یہ جنگ نظر کیسی آتی ہے؟ اس میں کون کون شامل ہیں؟ اور اس کے محاذ کہاں کہاں ہیں؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کے لیے ہمیں یہ دیکھنا ہوگا کہ عالمی سطح پر جنگ سے متاثر ممالک کون کون ہیں۔
 ترینن کے مطابق مشرقی یورپ عالمی جنگ کا مرکز ہے۔ اس مبینہ تیسری عالمی جنگ کا سب سے بڑا محاذ مشرقی یورپ ہے جہاں روس اور یوکرین کے درمیان گزشتہ ۳؍سال سے زوردار جنگ جاری ہے۔ یوکرین کو امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور نیٹو کے دیگر ممالک سے لگاتار اسلحے، ٹریننگ اور مالی امداد مل رہی ہیں۔ حالانکہ یہ جنگ زمین پر روایتی اسلحہ سے لڑی جا رہی ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ سائبر حملے، اطلاعاتی جنگ، سیٹیلائٹ جاسوسی اور ڈیجیٹل نگرانی جیسے جدید محاذ بھی کھل چکے ہیں۔ یہ جنگ اب محض ۲؍ ممالک کے درمیان نہیں رہی بلکہ عالمی قوتوں کے آمنے سامنے کی جنگ بن چکی ہے۔
 ترینن کے مطابق مشرق وسطیٰ اس جنگ کا دوسرا سب سے فعال محاذ بن چکا ہے۔ اسرائیل اور حماس کے درمیان غزہ میں جنگ جاری ہے۔ اس میں اب ایران اور حزب اللہ جیسی علاقائی طاقتیں بھی شامل ہو چکی ہیں۔ امریکہ کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے جبکہ ایران کو روس اور چین کی بلاواسطہ حمایت مل رہی ہے۔ یہاں جنگ کی فطرت روایتی کی جگہ غیر رواتی ہے جس میں ڈرون حملے، پراکسی جنگجو، سائبر حملے اور محدود ایئر اسٹرائیک اہم حکمت عملیاں بن چکی ہیں۔
   ترینن نے اپنی تھیوری میں کہا کہ چین اور امریکہ کے درمیان بڑھتی کشیدگی کے سبب ایشیا-پیسفک علاقہ تیسرے محاذ کی شکل میں ابھر رہا ہے۔ تائیوان کو چین اپنا حصہ مانتا ہے اور لگاتار فوجی دباؤ بڑھا رہا ہے۔ دوسری طرف امریکہ تائیوان کو اسلحہ اور تکنیکی مدد سے حمایت دے رہا ہے۔ فی الحال یہ جنگ ’سرد جنگ‘ جیسی ہے لیکن تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ تائیوان آبنائے یا جنوبی چینی سمندر میں کوئی بھی  اشتعال اس علاقہ کو سیدھے فوجی تصادم کی طرف دھکیل سکتا ہے۔د متری ترینن کے مطابق اس تیسری جنگ میں اقوام متحدہ جیسے عالمی ادارہ بے اثر ثابت ہو رہے ہیں اور ایک نیا عالمی نظام ابھر رہا ہے۔ یہ جنگ طویل مدت تک چلنے والی ہے اور غالباً اس کے آخر میں ایک نیا طاقتور توازن قائم ہوگا۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK