Inquilab Logo Happiest Places to Work

یمن : ہندوستانی نرس کو موت کی سزا سے بچانے کیلئے سماجی گروپ سرگرم، دیت کی پیشکش کرے گا

Updated: July 11, 2025, 1:24 PM IST | Agency | Sana`a/New Delhi

یمن میں کیرالا سے تعلق رکھنے والی نمیشا پریا کو۱۶؍جولائی کو پھانسی کی سزا دی جائیگی،سزا معاف کرانے کیلئےمقتول کے ورثاء کو خصوصی کمیٹی ۸۵؍لاکھ روپے کے ہرجانے کی پیشکش کرے گی۔

Namisha Priya. Photo: INN
نمیشا پریا۔ تصویر: آئی این این

یمنی شہری کے قتل کے معاملے میں مجرم قرار دی گئی ہندوستانی نرس نمیشا پریا کو موت کی سزا سے بچانے کیلئے کوششیں تیز کردی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کے رضاکاروں پر مشتمل خصوصی کمیٹی نمیشا کو سزا سے بچانے کیلئے یمنی حکام اور ملکی انتظامیہ سے مسلسل رابطے میں ہے۔ رپورٹ کے مطابق نمیشا پریا کو سزاسے بچانے کے لئے آخری داؤ کے تحت خون بہا ادا کرنے کی تیاری بھی ہے۔ اس کے لئے مقتول طلال عبدو مہدی کے کنبہ کو۸۵؍لاکھ روپے (ایک ملین امریکی ڈالر) بطور دَیت کی پیشکش کی جائے گی۔ خیال رہے کہ اگر ’بلڈ منی‘ پر بات نہیں بنتی ہے تو نمیشا کی پھانسی کی سزا پر مقرر ہ وقت (۱۶؍جولائی ) پر عمل درآمد کردیا جائے گا۔
 رپورٹ کے مطابق نمیشا پریا کو پھانسی سے بچانے کے لیے مہدی کنبہ کو ایک  ملین ڈالر (کم و بیش ۸۵؍ لاکھ روپے) دینے کی پیشکش کی گئی ہے۔ دراصل نمیشا کو عبدو کے ہی قتل معاملے میں پھانسی پر چڑھانے کی سزا سنائی گئی ہے۔یمن کے قانون کے مطابق اگر عبدو کا کنبہ دیت کیلئے تیار ہوجاتا ہے اور’بلڈ منی‘ لے کر مان جاتا ہے تو نمیشا کو پھانسی پر نہیں چڑھایا جائے گا۔ نمیشا کی ماں کو امید ہے کہ عبدو مہدی کا کنبہ بلڈ منی لے کر مان جائے گا۔ یمن کی عدالت نے مہدی قتل معاملے میں نمیشا کو۱۶؍ جولائی کو پھانسی دینے کا فیصلہ سنایا ہے۔ عدالت کے مطابق نمیشا اپنے بزنس پارٹنر مہدی کو مارنے میں راست طور پر شامل تھی، اسلئے  اسے پھانسی کی سزا سنائی گئی ہے۔ 
 نمیشا کی ماں نے ایک انٹرویو میں بتایا ہے کہ بیٹی کیخلاف جاری کیس لڑنے میں اس کا پورا گھر فروخت ہو گیا ہے، اب نمیشا پریا کو بچانے کے لئے کراؤڈ فنڈنگ کا سہارا لیا جا رہا ہے۔ بلڈ منی کیلئے جیسے ہی مہدی کا کنبہ راضی جاتا ہے، ویسے ہی اسے پیسے دے دیئے جائیں گے۔  دیت کیلئے ہرجانے کی رقم جٹانے میں سماجی رضاکارمحنت کررہے ہیں اور عوامی طو رپر چندہ کرکے یہ بڑی رقم جٹانے کی کوشش بھی جاری ہے ۔ 
معاملہ کیا ہے؟
 کیرالا کے پلکڑ کی رہنے والی نمیشا پریا، سند یافتہ نرس بننے کے بعد ۲۰۰۸ء میں بغرض ملازمت یمن گئی تھی۔۲۰۱۱ء میں وہ واپس کیرالا آئی اور اس کی ٹومی تھامس نامی شخص سے شادی ہوئی جو پیشے سے الیکٹریشین ہے۔ ۲۰۱۱ءمیں یہ جوڑا یمن واپس آیا۔ یہاں نمیشا نے اپنا کلینک کھولنے کیلئے کوشش کی۔ یمنی قانون کے مطابق غیرملکی کو کسی بھی قسم کے کاروبار کیلئے یمنی شہری کی شراکت داری لازمی ہوتی ہے۔ اس نے طلال عبدو مہدی نامی یمنی شہری کو اپنا بزنس پارٹنر بنایا۔ ۲۰۱۷ء میں نمیشا اور طلال کے درمیان آمدنی کے معاملے پر تنازع ہوا۔ اپنے دستاویز نکالنے کیلئے ایک دن نمیشا نے موقع پاکر طلال کو بے ہوشی کا انجکشن دیا ، یہ ڈوز حد سے زیادہ ہوگیا اور طلال کی موت ہوگئی۔ نمیشا نے اس معاملے کو چھپانے کیلئے طلال کی لاش پانی کی ٹنکی میں ڈال دی اور فرار ہوگئی۔ نمیشا کے وکیل کے مطابق مہدی اس کا بزنس پارٹنر تھا اور ایک دن اس نے جسمانی بدسلوکی کی۔ پاسپورٹ چھین لیا اور اسے بندوق دکھا کر دھمکی دی۔ پاسپورٹ واپس لینے کے لیے نمیشا نے اسے بیہوشی کا انجکشن لگایا لیکن وہ اوور ڈوز ہو گیا۔

سپریم کورٹ سے مداخلت کی اپیل، پھانسی سے ۲؍ روزقبل شنوائی ہوگی
جمعرات کو سپریم کورٹ نے کیرالا سے تعلق رکھنے والی  نرس نمیشا پریا کی یمن میں مجوزہ پھانسی کو روکنے کیلئے دائرکردہ درخواست کی فوری سماعت پر رضامندی ظاہر کی۔ یہ درخواست  ’سیونمیشا پریا ایکشن کونسل‘ کی جانب سے دائر کی گئی ہے۔  عدالتِ عظمیٰ نے اٹارنی جنرل کو پیشگی نوٹس جاری کیا اور مرکزی حکومت سے اس درخواست پر جواب طلب کیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اس معاملے کی سماعت۱۴؍ جولائی کیلئے مقرر کی ہے۔ سینئر وکیل آر بسنّت نے عدالت میں فوری طور پر ذکر کیا اور نمیشا پریا کی۱۶؍ جولائی کو طے شدہ پھانسی کے خلاف عدالت کی مداخلت کی درخواست کی۔یہ معاملہ جزوی کام کے دنوں میں کام کرنے والی بینچ  جسٹس سدھانشو دھولیا اور جسٹس جوئی مالیا باگچی  کے سامنے پیش کیا گیا، اور فوری سماعت کی درخواست کی گئی۔ سپریم کورٹ کو بتایا گیا کہ شریعت کے مطابق، اگر مقتول کے ورثاء خون بہا قبول کرنے پر راضی ہو جائیں تو مجرم کو رہا کیا جا سکتا ہے، اور اس آپشن کو تلاش کرنے کے لئے  بات چیت کی جا سکتی ہے۔یہ درخواست’سیو نمیشا پریا ایکشن کونسل‘ کی جانب سے دائر کی گئی ہے، جس میں مرکز (حکومت ہند) کو ہدایت دینے کی اپیل کی گئی ہے کہ وہ سفارتی ذرائع سے نمیشا پریا کی رہائی کے لیے مذاکرات میں مدد کرے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK