• Tue, 23 December, 2025
  • EPAPER

Inquilab Logo Happiest Places to Work

برطانیہ، سوئزرلینڈ میں بھی ۱۶؍ سال سے کم عمر بچوں کے سوشل میڈیا پر پابندی زیرغور

Updated: December 22, 2025, 8:59 PM IST | London

برطانیہ میں ۱۶؍ سال سے کم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا پر پابندی کے امکان پر بحث تیز ہو گئی ہے، خاص طور پر آسٹریلیا میں نافذ قانون کے بعد۔ اگرچہ برطانوی وزیر اعظم اس وقت مکمل پابندی کے حامی نہیں، تاہم حکومت پالیسی کے نتائج کا جائزہ لے رہی ہے۔ اسی طرح سوئزرلینڈ میں بھی بچوں کو آن لائن خطرات سے بچانے کیلئے ممکنہ پابندی پر غور کیا جا رہا ہے۔

Photo: INN.
تصویر: آئی این این۔

دی ٹیلی گراف کی رپورٹ کے مطابق برطانیہ ۱۶؍ سال سے کم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی عائد کرنے کے امکان پر غور کر رہا ہے۔ یہ بحث ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب آسٹریلیا میں پہلے ہی قانون سازی کے ذریعے ۱۶؍ سال سے کم عمر بچوں کو فیس بک، ایکس، انسٹاگرام، اسنیپ چیٹ اور ٹک ٹاک جیسے بڑے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے استعمال سے روک دیا گیا ہے۔ آسٹریلیا میں یہ قانون بچوں کو آن لائن نقصانات، ذہنی دباؤ اور انٹرنیٹ کے ممکنہ خطرات سے بچانے کے مقصد سے نافذ کیا گیا تھا۔ رپورٹ کے مطابق اگرچہ برطانوی وزیر اعظم کیئر سٹارمر نے عوامی طور پر ۱۶؍  سال سے کم عمر بچوں پر مکمل پابندی کی مخالفت کی ہے، تاہم وہ آسٹریلیا میں نافذ پالیسی کے نتائج پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ دی ٹیلی گراف کا کہنا ہے کہ اگر آسٹریلوی ماڈل مؤثر ثابت ہوتا ہے تو برطانیہ کی حکومت بھی اسی طرز کی قانون سازی پر غور کر سکتی ہے۔ اس سلسلے میں وزیر اعظم اور ٹیکنالوجی سیکریٹری لز کینڈل کے درمیان بات چیت جاری ہے۔

یہ بھی پڑھئے: ایپسٹین فائلز: ٹرمپ کی تصویر ہٹانے پر شدید ردعمل، دوبارہ شامل کی گئی

ٹیلی گراف کے مطابق ایک سرکاری ترجمان نے بچوں کی آن لائن حفاظت کے حوالے سے والدین کے بڑھتے ہوئے خدشات کو تسلیم کرتے ہوئے کہا کہ حکومت سوشل میڈیا کے بچوں پر اثرات کو سنجیدگی سے دیکھ رہی ہے۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ حکومت نے عالمی سطح پر ایسے اقدامات کئے ہیں جن کے ذریعے آن لائن مواد کی عمر کے مطابق درجہ بندی اور نگرانی کو یقینی بنایا جا سکے۔ ترجمان نے واضح کیا کہ حکومت کا مقصد بچوں کو محفوظ رکھنا ہے لیکن ساتھ ہی انہیں انٹرنیٹ سے مثبت اور محفوظ انداز میں فائدہ اٹھانے کے مواقع بھی فراہم کرنا ہے، تاکہ ضروری ڈجیٹل خدمات منقطع نہ ہوں اور کمزور طبقے تنہائی کا شکار نہ ہوں۔ انہوں نے کہا کہ آسٹریلیا کے عمر کی بنیاد پر پابندی کے ماڈل کا بغور جائزہ لیا جا رہا ہے، تاہم کسی بھی فیصلے کی بنیاد مضبوط شواہد پر ہونی چاہئے۔

یہ بھی پڑھئے: بنگلہ دیش: ایک اور طلبہ لیڈر مطلب سکدر کو گولی ماری گئی، خطرے سے باہر

ادھر برطانیہ کی پارلیمنٹ کی آفیشل ویب سائٹ پر ایک پٹیشن بھی دائر کی گئی جس میں مطالبہ کیا گیا کہ بچوں کیلئے سوشل میڈیا استعمال کرنے کی کم از کم عمر ۱۶؍ سال مقرر کی جائے۔ اگرچہ یہ پٹیشن اب بند ہو چکی ہے، لیکن اس پر ایک لاکھ سے زائد دستخط موصول ہو چکے ہیں۔ پٹیشن کے حامیوں کا کہنا تھا کہ اس اقدام سے آن لائن غنڈہ گردی، گمراہ کن معلومات اور تشدد پر مبنی مواد سے بچوں کو بچایا جا سکتا ہے۔ دوسری جانب، کچھ ماہرین اور حکومتی حلقوں نے خبردار کیا ہے کہ مکمل پابندی بچوں کو غیر منظم یا زیادہ خطرناک آن لائن پلیٹ فارمز کی طرف دھکیل سکتی ہے۔ ان کے مطابق حکومت کو اس مسئلے پر زیادہ متوازن اور باریک بینی سے سوچا ہوا طریقہ اپنانا چاہئے۔
ٹیکنالوجی سیکریٹری لز کینڈل، جو شواہد پر مبنی پالیسی کی حامی ہیں، نے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ اے آئی چیٹ بوٹس اور بچوں کی نیند کے مسائل پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ بچوں کو ڈجیٹل دنیا سے نمٹنے کی تربیت دینا اور انہیں نقصان دہ مواد سے محفوظ رکھنا—ان دونوں کے درمیان ایک نازک توازن قائم کرنا ضروری ہے۔ یاد رہے کہ دسمبر ۲۰۲۴ء میں برطانوی حکومت نے واضح کیا تھا کہ وہ اس وقت ۱۶؍ سال سے کم عمر بچوں کیلئے سوشل میڈیا یا اسمارٹ فونز پر مکمل پابندی کی حمایت نہیں کرتی، البتہ پلیٹ فارمز کو بچوں کیلئے نقصان دہ مواد سے بچاؤ کے سخت اقدامات کا پابند بنایا جائے گا۔

یہ بھی پڑھئے: اسٹاک ہوم، سویڈن: مسجد میں قرآن مجید کے نسخے کی بے حرمتی

سوئزر لینڈ میں پابندی زیرغور
اسی تناظر میں، سوئزرلینڈ کی وزیرداخلہ ایلزبیتھ بوم شنائیڈر نے بھی اشارہ دیا ہے کہ بچوں کو سوشل میڈیا کے خطرات سے بچانے کے لیے پابندی سمیت تمام آپشنز زیر غور ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آسٹریلیا اور یورپی یونین میں جاری بحث کو سوئزرلینڈ میں بھی سنجیدگی سے دیکھا جانا چاہئے۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK