Inquilab Logo Happiest Places to Work

للیتا بابر نے دوڑ کر ملک کا نام آگے بڑھایا ہے

Updated: June 03, 2025, 11:27 AM IST | Agency | Mumbai

کھیل کا میدان ایک ایسا شعبہ ہےجس نے خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے اورصنفی مساوات کو آگے بڑھانے کی اپنی بے پناہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔

Famous runner Lalita Babar. Photo: INN
مشہور رنر للیتا بابر۔ تصویر: آئی این این

کھیل کا میدان ایک ایسا شعبہ ہےجس نے خواتین اور لڑکیوں کو بااختیار بنانے اورصنفی مساوات کو آگے بڑھانے کی اپنی بے پناہ صلاحیت کا مظاہرہ کیا ہے۔ کھیلوں کے میدان سے ہی خواتین کو اپنی پوشیدہ صلاحیتو ں کو بروئے کار لانے کےلئے ایک پلیٹ فارم مہیا ہوتا ہے۔ جہاں سے وہ دنیاکو اپنی ہنر مندی کے جلوے دکھاتی ہیں۔ للیتا بابر بھی ایک ایسی ہی ہندستانی خاتون ایتھلیٹ ہیں جنہوں نے فیلڈ اینڈ ٹریک میں ہندستان کا نام روشن کیا ہے۔ للیتا بابر ایک ہندوستانی لمبی دوری کی رنر ہیں۔ وہ بنیادی طور پر ۳؍ہزارمیٹرا سٹیپل چیس میں مقابلہ کرتی ہے اور اسی ایونٹ میں ایشین چیمپئن ہیں۔ ہندوستانی ایتھلیٹ للیتا بابر نے ۳؍ دہائیوں میں ٹریک ایونٹ کے فائنل میں داخل ہونےوالی پہلی خاتون بن کر اولمپک گیمز میں ہندوستان کی ایتھلیٹکس کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا۔ للیتا بابر۲؍جون ۱۹۸۹ءکومہاراشٹرکے ستارہ ضلع کے ایک گاؤں موہی میں ایک کسان گھرانے میں پیدا ہوئیں۔ وہ ایک ایسے علاقے میں پیدا ہوئی تھی جو باقاعدگی سے خشک سالی سے متاثر رہتا تھا۔ بابر نے کم عمری میں ایتھلیٹکس میں اپنے کریئر کا آغاز ایک لمبی دوری کے رنر کے طور پر شروع کردیا تھا۔ 
 ایک زمانےمیں جب ایک۱۱؍سالہ لڑکی ننگے پاؤں دوڑ کر اپنے اسکول جاتی تھی، کوئی نہیں جانتا تھا کہ وہ کب ہندوستان کے لیے ٹریک پر دوڑے گی اورایتھلیٹس میں تاریخ رقم کرے گی۔ للیتا نے شاید اولمپکس میں کوئی تمغہ نہیں جیتا ہو۔ لیکن انہوں نے اپنے گاؤں کے لیے ایک مثال قائم کی ہے اور اپنے اساتذہ کے اعتماد کو ٹوٹنے نہیں دیا جنہوں نے ۱۶؍ سال پہلے للیتا پر محنت کی تھی۔ باپ جو ۱۵؍سال پہلے اپنےکھیت اور فصلوں کی فکر میں رہتا تھا، آج اس بات پرخوش ہیں کہ للیتا کے کھیل نے ان کے والد اور خاندان کی زندگی کیسے بدل کر رکھ دی ہے۔ للیتا کے ماں باپ نے حقیقت میں اس غربت بھری زندگی میں بھی للیتا کے حوصلے کو ہمیشہ بلند رکھا۔ ان کی بہترین ایتھلیٹ بنے میں ان کے والدین کا اہم کردار رہا ہے۔ 
 انہوں نے۲۰۰۵ءمیں پونےمیں انڈر ۲۰؍ نیشنل چمپئن شپ میں اپنا پہلا گولڈ میڈل جیتا تھا۔ للیتا بابرنےانچیون، جنوبی کوریا میں منعقدہ ۲۰۱۴ء کے ایشین گیمز میں ۳؍ہزارمیٹر اسٹیپل چیس میں چاندی کا تمغہ جیتا تھا۔ اس کے بعد انہوں نےووہان میں منعقدہ ۲۰۱۵ءایشین چیمپیئن شپ میں ۳؍ہزارمیٹر اسٹیپل چیس میں گولڈ میڈل جیتا۔ ۲۰۱۶ء میں باوقار ارجن ایوارڈ حاصل کیا۔ 
بابر کو کھیلوں کے کوٹے سے مہاراشٹر کے رائے گڑھ ضلع کے مانگاؤں تعلقہ کا تحصیلدار مقرر کیا گیا ہے۔ للیتا بابر کا سفر ایتھلیٹک صلاحیتوں کی کہانی سے کہیں زیادہ لگتا ہے۔ یہ رکاوٹوں کو توڑنے اور اصولوں کی نئی تعریف کرنے کا ثبوت ہے۔ ان کے عزم اور کامیابیوں نےنہ صرف ہندوستانی ایتھلیٹکس کی فہرست میں ان کا نام نقش کیا ہےبلکہ نوجوان خواتین کی ایک نسل کو سماجی دباؤ سے قطع نظر اپنے خوابوں کا تعاقب کرنے کی ترغیب دی ہے۔ 

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK