Updated: December 05, 2025, 3:26 PM IST
|
Inquilab News Network
| Mumbai
ان گروہوں کو اسرائیل کی جانب سے غزہ کے باشندوں میں تقسیم کرنے کیلئے ضرورت کی اشیا بھی فراہم کی جا رہی ہے اور اسلحہ بھی، نیتن یاہو نے خود اس کا اعتراف کیا ہے۔
حماس کے خلاف اسرائیل ایک نہیںکئی طرح کی سازشیں کررہا ہے۔ تصویر:آئی این این
غزہ میں حماس کا مقابلہ کرنے کیلئےگزشتہ کچھ عرصے میںمسلح گروہ سرگرم ہوئے ہیں جن کے تعلق سے کئی سوالات کھڑے ہو رہے ہیں۔ان میں سے کچھ قبائلی گروہ ہیں، کچھ جرائم پیشہ گینگ ہیں تو کچھ نئے ملیشیا ہیں، ان میں سے بیشتر کو اسرائیل کی حمایت حاصل ہے۔ حال ہی میں اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے اس کا اعتراف بھی کیا ہے۔ بی بی سی نے حال ہی میں اس تعلق سے ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی ہے۔
رپورٹ کے مطابق فلسطین اتھاریٹی میں شامل کُچھ عناصر بھی خفیہ طور پر ان گروہوں کی مدد کرتے ہیںلیکن یہ گروہ غزہ کے اُس حصے میں اپنے آبائی علاقے میں کام کر رہے ہیں جو اسرائیلی فوج کے کنٹرول میں ہیں لیکن انھیں سرکاری طور پر امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے امن منصوبے میں شامل نہیں کیا گیا۔امن منصوبے کے تحت عالمی استحکام فورس اور نئی تربیت یافتہ فلسطینی پولیس فورس کا تصور پیش کیا گیا تھا تاکہ معاہدے کے اگلے مرحلے میں غزہ کا کنٹرول سنبھالا جا سکے۔ ان گروپوں میں سے ایک کی قیادت یاسر ابو شباب کر رہے ہیں، جن کی عوامی فورس جنوبی شہر رفح کے قریب کام کرتی ہے۔ حال ہی میں ایک ویڈیو میں ان کے نائب نے اس منصوبے کے تحت غزہ کا انتظام سنبھالنے والے بین الاقوامی ادارے، امن کونسل، کے ساتھ مل کر کام کرنے کے بارے میں بات کی۔ اسی طرح حسام الاستل جنوبی شہر خان یونس کے قریب ’اینٹی ٹیرارسٹ اسٹرائک فورس‘ نامی گروپ کے قائد ہیںان کا کہنا ہے کہ ’امریکی نمائندوں‘ نے تصدیق کی ہے کہ ان کا گروہ غزہ کی آئندہ پولیس فورس میں اہم کردار ادا کرے گا۔ان سے پوچھا گیا کہ کیا ان کی مستقبل کے تعلق سے امریکی انتظامیہ سے گفتگو ہوئی ہے؟ تو انہوں نے مسکراتے ہوئےکہا کہ میں جلد ہی اس کی تفصیلات سے آپ کو آگاہ کروں گا۔اُن سے سوال کیا گیا کہ( امریکہ سے ہونے والی گفتگو سے وہ مطمئن ہیں توانھوں نے پھر مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ہاں‘۔ یہ گروہ زیادہ پراعتما د دکھائی دے رہا ہے اور خان یونس کے قریب بستی میں ضروریاتِ زندگی کی اشیا سپلائی کر رہا ہے۔ یہ پوچھنے پر کہ کیا اسرائیل انھیں امدادی اشیا فراہم یا سپلائی کر رہا ہے؟ تو حسام الاستل کا کہنا تھا کہ یہ اس سوال کا جواب دینے کا مناسب وقت نہیں ہے۔ لیکن ہم اسرائیل کے ساتھ خوراک، ہتھیار یہاں تک کہ سب کچھ لانے کیلئے رابطہ کرتے ہیں۔‘ البتہ ان کا کہنا ہے کہ اسرائیل ہی واحد ملک نہیں ہے کہ جہاں سے مدد ملتی ہے۔ ہمیں یہ بھی سُننے کو ملتا ہے کہ ہم اسرائیل کے ایجنٹ ہیں۔ ہم اسرائیل کے ایجنٹ نہیں ہیں۔‘ ہمیں فلسطینی اتھاریٹی، امریکہ یا کسی بھی ایسے فریق کے ساتھ تعاون کرنے میں کوئی مسئلہ نہیں جو ہمارے ساتھ کھڑا ہو۔ ہم حماس کا متبادل ہیں۔‘
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ غزہ کے باشندے جن میں ایسے افراد بھی شامل ہیں جو حماس سے مایوس ہو چکے ہیں، ان مسلح گروہوں سے ناخوش ہیں۔ ان میں سے ایک صالح سویدن نے کہا کہ ’صرف چند ایسے مرد، جن کا نہ کوئی دین ہے، نہ ایمان اور نہ اخلاق، ان مجرموں کا ساتھ دے رہے ہیں۔‘ اُن کا کہنا ہے کہ ’غزہ کی حکومت ہم پر حکمرانی کرتی تھی اور اگرچہ شہریوں پر بہت بوجھ تھا لیکن حکومت جیسی بھی ہو مسلح گروہوں یا گینگ سے بہتر ہوتی ہے۔ ‘غزہ شہر کے ایک اور رہائشی ظاہر دولہ نے کہا کہ ’یہ گروہ جو قبضے یعنی اسرائیل کے ساتھ تعاون کر رہے ہیں جنگ کی سب سے بدترین پیداوار ہیں ان میں شامل ہونا نہ صرف خطرناک ہے بلکہ یہ غداری ہے۔‘ ۳۱؍سالہ مونتاصر مسعود نے بتایا کہ وہ اپنی اہلیہ اور چار بچوں کے ساتھ دو ماہ قبل الاستل کی نئی خیمہ بستی میں گئے۔ وہ رات کے وقت اسرائیلی انتظامیہ سے رابطے اور اجازت کے بعد پیلی لکیر عبور کر کے آئے تاکہ حماس سے بچ سکیں۔لیکن انھوں نے کہا کہ ان کے وہ رشتہ دار جو حماس کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں رہے اس فیصلے پر تنقید کر رہے ہیں۔انھوں نے مُجھے بتایا کہ ’وہ ہمیں ہراساں کر رہے ہیں، ہمیں کہتے ہیں کہ جو ہم کر رہے ہیں وہ غلط ہے اور اس کا کوئی مستقبل نہیں۔‘جب ہم فون پر بات کر رہے تھے تو ہمارے اردگرد شدید فائرنگ کی آواز بار بار گفتگو میں خلل ڈال رہی تھی۔انھوں نے وضاحت کی کہ ’یہ اسرائیلی فوج ہے جو قریب ہے۔‘’لیکن یہ کوئی مسئلہ نہیں کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہم ان کا ہدف نہیں ہیں۔‘
اب متعدد مسلح گروہ حماس کا مقابلہ کر رہے ہیں جن کے باہمی تعلقات پیچیدہ اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں۔مثال کے طور پر ابو شباب کے گروہ پر الزام ہے کہ اس نے جنگ کے دوران غزہ بھیجے گئے امدادی ٹرکوں کو لوٹا اور اسرائیل میں ایسی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اس کے دو ارکان کے ماضی میں خود ساختہ دولتِ اسلامیہ گروہ سے روابط رہے ہیں۔اسرائیلی وزیرِ اعظم بنیامن نیتن یاہو نے گزشتہ ماہ ان خبروں کے جواب میں کہا کہ ان کا ملک خفیہ طور پر ملیشیا گروہوں کی حمایت کر رہا تھا۔ اُن کا کہنا تھا کہ ’یہ اچھی بات ہے۔ یہ فوجیوں کی جانیں بچاتا ہے۔ اس میں کیا غلط ہے؟‘انھوں نے مزید کہا کہ اس معاملے پر بات کرنے سے یا حقائق کو ظاہر کرنے سے ’صرف حماس کی مدد‘ ہوئی ہے۔نیتن یاہو نے اصرار کیا ہے کہ غزہ پر نہ حماس حکومت کرے گی اور نہ ہی اس کی حریف فلسطینی اتھاریٹی۔ امریکی امن منصوبے کے مطابق فلسطینیوں کی ایک تکنیکی اور غیر سیاسی کمیٹی غزہ کا قلیل المدتی انتظام بین الاقوامی نگرانی میں چلائے گی۔