اقوام متحدہ کی چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق خواتین کیلئے گھر سب سے خطرناک جگہ ہے، جہاں ہر دس منٹ میں ایک خاتون اپنے خاندان کے کسی فرد یاشناسا کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہے۔
EPAPER
Updated: November 26, 2025, 2:04 PM IST | New York
اقوام متحدہ کی چونکا دینے والی رپورٹ کے مطابق خواتین کیلئے گھر سب سے خطرناک جگہ ہے، جہاں ہر دس منٹ میں ایک خاتون اپنے خاندان کے کسی فرد یاشناسا کے ہاتھوں قتل ہو رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر۱۰؍ منٹ میں ایک خاتون اپنے خاندان کے کسی فرد یاشناسا کے ہاتھوں قتل کر دی جاتی ہے۔۔ سال۲۰۲۴ء میں تقریباً۵۰؍ہزار خواتین اور لڑکیوں کو ان کے ساتھیوں یا خاندان والوں نے قتل کیا، جس سے گھر اب بھی سب سے خطرناک مقام ثابت ہورہا ہے۔پیر کو جاری ہونے والی ایک نئی اور ہلا دینے والی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ دنیا میں ہر دن ہر۱۰؍ منٹ میں، ایک خاتون کو اس کے کسی جاننے والے کے ہاتھوں قتل کر دیا جاتا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: یرغمال بنائے گئے امارات کے شہزادہ کی رہائی کیلئے ۵؍ کروڑ ڈالر تاوان کی ادائیگی
بعد ازاں خواتین کے خلاف تشدد کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر جاری کی گئی یہ رپورٹ خبردار کرتی ہے کہ خواتین کے قتل کو روکنے کی عالمی کوششیں رک گئی ہیں اور خواتین کے خلاف تشدد اب بھی گہرائی سے جڑ پکڑے ہوئے اور وسیع پیمانے پر موجود ہے۔اقوام متحدہ کے دفتر برائے ’’منشیات و جرائم اور یو این ویمن‘‘ کی اس رپورٹ کے مطابق، سال۲۰۲۴ء میں تقریباً۵۰؍ ہزار خواتین اور لڑکیوں کو ان کے قریبی ساتھیوں یا خاندان کےافراد نے قتل کیا۔۱۱۷؍ ممالک کے اعداد و شمارکے مطابق یہ عدد روزانہ اوسطاً ۱۳۷؍ خواتین کےمساوی ہے۔
دریں اثناء مطالعے میں بتایا گیا ہے کہ گزشتہ سال قتل ہونے والی تمام خواتین میں سے۶۰؍ فیصد کو ان کے قریبی افراد نے مارا۔ اس کے برعکس، مردوں کے قتل کیے جانے کے واقعات میں سے صرف۱۱؍ فیصد میں ان کے ساتھی یا خاندان کے اراکین قاتل ثابت ہوئے۔مطالعہ اس بات پر بھی روشنی ڈالتا ہے کہ جہاں دنیا میں خواتین کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں، وہیں افریقہ میں ایسے واقعات سب سے زیادہ، تقریباً۲۲۰۰۰؍ ، درج ہوئے۔ افریقہ کے بعد ایشیا، امریکہ، یورپ اور اوقیانوس کا نمبر آتا ہے۔محققین نے خبردار کیا ہے کہ اگرچہ یہ مجموعی تعداد گزشتہ سال کے مقابلے میں ذراکم ہے، لیکن اس کا مطلب تشدد میں حقیقی کمی نہیں ہے۔ بلکہ، ان کا کہنا تھا کہ مختلف ممالک میں ڈیٹا کے اندراج اور دستیابی میں فرق نے شاید اعداد و شمار پر اثر ڈالا ہے۔
یہ بھی پڑھئے: آسٹریلوی سینیٹر پولین ہینسن نے پارلیمنٹ میں برقع پہن کر تنازع کھڑا کیا
تاہم رپورٹ کے مطابق، ٹیکنالوجی میں ترقی نے خواتین کے لیے نام نہاد جدید خطرات کو جنم دیا ہے، جن میں بغیر رضامندی کے تصاویر شیئر کرنا،ذاتی معلومات لیک کرنا، اور ڈیپ فییک ویڈیوز شامل ہیں۔ یو این ویمن کی پالیسی ڈویژن کی ڈائریکٹر سارہ ہینڈرکس کا کہنا تھا کہ ’’خواتین کے قتل الگ تھلگ واقعات نہیں ہوتے۔ وہ اکثر تشدد کے ایک تسلسل کا حصہ ہوتے ہیں جو کنٹرول کرنے والے رویے، دھمکیوں اور ہراساں کرنے بشمول آن لائن سے شروع ہو سکتا ہے۔‘‘ انہوں نے مزید کہا، "ہمیں ایسے قوانین کے نفاذ کی ضرورت ہے جو اس بات کو تسلیم کریں کہ خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں آن لائن اور آف لائن دونوں جگہ تشدد کس طرحکیا جاتاہے، اور قصورواروں کو اس تشدد کے جان لیوا ہونے سے بہت پہلے ذمہ دار ٹھہرائیں۔‘‘