Inquilab Logo

تاریخ کے وہ مثالی استاد اور شاگرد جو ہمیشہ یاد رکھے جائینگے

Updated: September 03, 2022, 11:37 AM IST | Mumbai

قدیم زمانے کی بات ہے کہ ایک بار فاتح ِ عالم، سکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آیا جو تازہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے بپھرا ہوا تھا۔

Picture .Picture:INN
علامتی تصویر ۔ تصویر:آئی این این

نالہ پہلے کون پار کرے گا؟
قدیم زمانے کی بات ہے کہ ایک بار فاتح ِ عالم، سکندر اپنے استاد ارسطو کے ساتھ گھنے جنگل سے گزر رہے تھے کہ راستے میں ایک بڑا برساتی نالہ آیا جو تازہ موسلا دھار بارش کی وجہ سے بپھرا ہوا تھا۔ یہاں استاد اور شاگرد کے درمیان تکرار شروع ہوگئی کہ پہلے نالہ پار کون کرے گا؟ سکندر بضد تھے کہ نالے کی دوسری طرف پہلے وہ جائیں گے۔ بالآخر ارسطو نے ہار مان لی اور پہلے سکندر نے ہی نالہ پار کیا، جب عالم اور طالب نے نالہ پار کرلیا تو ارسطو قدرے سخت لہجے میں سکندر سے مخاطب ہوئے اور پوچھا کہ، ’’کیا تم نے مجھ سے پہلے راستہ عبور کرکے میری بے عزتی نہیں کی؟‘‘ سکندر نے انتہائی ادب سے قدرے خم ہو کر جواب دیا، ’’ہرگز نہیں استادِ محترم، دراصل نالہ بپھرا ہوا تھا اور میں یہ اطمینان کرنا چاہتا تھا کہ کہیں آپ کو کوئی نقصان نہ پہنچے، کیونکہ ارسطو رہے گا تو ہزاروں سکندرِ اعظم وجود میں آئیں گے لیکن سکندر ایک بھی ارسطو کو وجود میں نہیں لا سکتا۔‘‘
استاد کے جانے کا غم
مولانا رومی کہتے ہیں: ’’مجھے آج بھی چینی کے گوداموں کے قریب کی وہ جگہ اچھی طرح یاد ہے جہاں میری اپنے روحانی استاد شمس تبریز سے پہلی ملاقات ہوئی تھی۔ اب جب کبھی اکتوبر کے اُن دنوں میں شمس سے دائمی جدائی کا غم شدت اختیار کر جاتا ہے تو میں چلّے میں بیٹھ کر شمس کے سکھائے محبت کے اُنہی چالیس اصولوں پر غور و غوض شروع کردیتا ہوں۔ مجھے یقین ہے کہ میرا شمس اِس دنیا سے رخصت ہوا تو کہیں دنیا کے کسی اور کونے میں کسی دوسرے نام سے ایک نئے تبریز نے جنم لیا ہوگا کیونکہ شخصیت تبدیل ہوتی رہتی ہے لیکن روح وہی رہتی ہے۔‘‘
اورنگزیب کے استاد
مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کو ملا احمد جیون سے ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ شہنشاہ بننے کے بعد ایک روز استاد کی یاد ستائی تو انہوں نے ملاقات کا پیغام بھیجا۔ دونوں نے عید کی نماز ایک ساتھ ادا کی، وقتِ رخصت اورنگزیب نے محترم استاد کو ایک چونی (چار آنے) بصد احترام پیش کئے۔ اورنگزیب مملکتی مسائل میں ایسا الجھے کہ ملا جیون سے ملاقات کا کوئی موقع ہی نہ ملا۔ تقریباً دس سال بعد اُن سے اچانک ملاقات ہوئی تو وہ یہ دیکھ ششدرہ رہ گیا کہ ملا جیون اب علاقے کے متمول زمیندار تھے۔
 استاد نے شاگرد کی حیرت بھانپتے ہوئے بتایا، ’’بادشاہ سلامت میرے حالات میں یہ تبدیلی آپ کی دی ہوئی اس ایک چونی کی بدولت ممکن ہوئی۔‘‘ اِس بات پر اورنگزیب مسکرائے اور کہا کہ، ’’استادِ محترم آپ جانتے ہیں میں نے شاہی خزانے سے آج تک ایک پائی نہیں لی مگر اُس روز آپ کو دینے کے لئے میرے پاس کچھ بھی نہ تھا، وہ چونی میں نے شاہی خزانے سے اُٹھائی تھی اور اُس رات میں نے ہی بھیس بدل کر آپ کے گھر کی مرمت کی تھی تاکہ خزانے کا پیسہ واپس لوٹا سکوں۔‘‘
استاد کے احترام کا جذبہ
خلیفہ ہارون رشید کے دو صاحبزادے امام نسائی کے پاس زیرِ تعلیم تھے۔ ایک بار استاد کے جانے کا وقت آیا تو دونوں شاگرد انہیں جوتے پیش کرنے کے لئے دوڑے، دونوں ہی استاد کے آگے جوتے پیش کرنا چاہتے تھے، یوں دونوں بھائیوں میں کافی دیر تک تکرار جاری رہی اور بالآخر دونوں نے ایک ایک جوتا استاد کے آگے پیش کیا۔ خلیفہ ہارون رشید کو اِس واقعے کی خبر پہنچی تو بصد احترام امام نسائی کو دربار میں بلایا۔ مامون رشید نے امام نسائی سے سوال پوچھا کہ، ’’استادِ محترم، آپ کے خیال میں فی الوقت سب سے زیادہ عزت و احترام کے لائق کون ہے؟‘‘ مامون رشید کے سوال پر امام نسائی قدرے چونکے۔ پھر محتاط انداز میں جواب دیا، ’’میں سمجھتا ہوں کہ سب سے زیادہ احترام کے لائق خلیفہ وقت ہیں۔‘‘ خلیفۂ ہارون کے چہرے پر ایک گہری مسکراہٹ اتری اور کہا کہ، ’’ہرگز نہیں استادِ محترم، سب سے زیادہ عزت کے لائق وہ استاد ہے جس کے جوتے اٹھانے کے لئے خلیفۂ وقت کے بیٹے آپس میں جھگڑیں۔‘‘
استاد سے عقیدت
ایک لا زوال داستان ہیلن کیلر اور اُن کی جذبۂ ایثار سے سرشار استانی مس این سلیوان کی بھی ہے۔ یہ ٹیلی فون کے مؤجد الیگزینڈر گراہم بیل تھے جنہوں نے اُن کی ملاقات ہیلن نامی اِس انوکھی بچی سے کروائی جو شدید دباؤ کا شکار تھی اور دیکھنے، سننے اور بولنے کی تینوں بنیادی حسوں سے نابلد تھی۔ این سلیوان نے ایک مشکل فیصلہ کرتے ہوئے ہیلن کو پڑھانے کی ٹھانی۔ وہ اُس کے ہاتھ پر پانی گرا کر بتاتی کہ پانی کیسا ہوتا ہے، اُس کے احساسات جگاتی، یوں بتدریج کٹھن مراحل کے بعد ہیلن اپنے ارد گرد کی دنیا سے آشنا ہوئی اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک نامور مصنفہ بنیں جس کا تمام تر سہرا این سلیوان کے سر ہے۔ زندگی کے آخری دنوں میں جب این سلیوان اسپتال میں تھیں تو کامیابیوں کے عروج پر چڑھتی ہیلن ہر روز اُن سے ملنے آتیں مگر وہ کسی بھی طرح اُن قربانیوں کا خراج ادا کرنے سے قاصر تھیں جو اُس عظیم استانی نے اُن کی زندگی سنوارنے کیلئے دی تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK