Inquilab Logo

خفیہ خزانہ

Updated: February 04, 2023, 10:58 AM IST | Syed Laeeq Ahmed | Mumbai

ارشد اور سیما، دونوں بھائی بہن ایک رات سونے کی تیاری کرتے ہیں۔ اس وقت انہیں احساس ہوتا ہے کہ گھر میں چند ڈاکو موجود ہیں۔ اس بات کا علم ہوتے ہی سیما گھبرا جاتی ہے مگر ارشد ایک منصوبہ بناتا ہے اور

photo;INN
تصویر :آئی این این

بارہ سال کا ارشد بہت سمجھدار اور بہادر لڑکا تھا۔ ارشد کی بہن سیما یوں تو اس سے بڑی تھی لیکن وہ بہت ڈرپوک تھی۔ وہ ہر کام میں جلدبازی کرتی اور اچھے بھلے کام کو بگاڑ دیتی۔ تھوڑی سی پریشانی پر بھی وہ گھبرا جاتی۔ چھوٹا ہونے پر بھی ارشد کو ہی اپنی بہن سیما کا خیال رکھنا پڑتا تھا۔ یوں تو دونوں کے کمرے الگ الگ تھے لیکن سیما پر ڈاکوؤں کا ڈر سوار رہتا تھا۔ اس لئے وہ ارشد کے کمرے میں ہی سوتی تھی۔ ایک مرتبہ ارشد کے والد صاحب کو کچھ دنوں کے لئے باہر جاناپڑا۔ امتحان قریب ہونے کی وجہ سے ارشد اور سیما رات دیر تک پڑھتے رہتے تھے۔
 ایک رات جب وہ دونوں لائٹ بند کرکے سونے کی تیاری کرنے لگے تو اچانک سیما کی نگاہ اپنے کمرے کی کھڑکی پر پڑی اور وہ ایک دم سہم گئی۔ اُسے محسوس ہوا جیسے اُس کے کمرے میں کوئی ہے۔ وہ ڈر کے مارے کانپنے لگی۔ ’’ارشد! ارشد! دیکھو تو آج شام میرے کمرے میں ڈاکو گھس آئے ہیں۔‘‘ کسی طرح اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے سیما نے سرگوشی میں کہا۔
 برابر کے کمرے سے ڈاکوؤں کے قدموں کی بھاری آواز سنائی دے رہی تھی۔ اس کے ساتھ سامان الٹنے پلٹنے کی آوازیں بھی آ رہی تھیں۔ ارشد اچھی طرح سمجھ گیا کہ ڈاکو اُس کے والد کے گھر میں نہ ہونے کی وجہ سے موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں اور پولیس اسٹیشن قریب ہونے کے باعث پکڑے جانے کے ڈر سے کوئی آواز پیدا کئے بغیر وہ سامان چرا کر لے جانا چاہتے ہیں۔
 ’’اب کیا ہوگا ارشد؟‘‘ سیما نے ڈرتے ڈرتے پوچھا۔ ’’تم ڈرو نہیں۔ مجھے کوئی ترکیب سوچنے دو۔‘‘ ’’ہمیں شور مچانا چاہئے۔‘‘ ’’نہیں! اگر ہم شور مچائیں گے تو وہ ہمیں اٹھا کر لے جائیں گے اور ڈیڈی سے زبردستی روپے وصول کریں گے یا پھر ہمیں وہ گولی مار دیں گے۔‘‘ ’’پھر ہمیں ممی کو جگانا چاہئے۔ شاید وہ کچھ کرسکیں۔‘‘ سیما نے کہا۔
 ’’ہم وہ بھی نہیں کرسکتے۔ ممی کو جگانے کے لئے ہم اُن کے کمرے میں گئے تو بھی ڈاکوؤں کو پتہ چل جائے گا۔ ہمیں کوئی ایسی ترکیب نکالنا چاہئے جس سے ڈاکو پکڑے بھی جائیں اور ہمیں کوئی نقصان بھی نہ ہو۔‘‘
 اُدھر ڈاکو سیما کے کمرے کی تلاشی لے رہے تھے اور اِدھر ارشد کا دماغ تیزی سے کچھ سوچ رہا تھا۔ اچانک اس کے چہرے پر خوشی چھا گئی اور وہ آہستہ آہستہ سیما کے کان میں کچھ کہنے لگا۔ اُس کی بات سن کر پہلے تو سیما گھبرا کر ’’نہ.... نہ....‘‘ کرنے لگی۔ پھر ارشد کے سمجھانے پر وہ مان گئی۔ ’’نہیں بھیا! مَیں تو اپنے سامان والے کمرے میں ہی جا کر سو رہی ہوں۔ کہیں چور یا ڈاکو آگئے تو سارا سامان اٹھا کر لے جائیں گے۔‘‘ ارشد کی ہدایت کے مطابق سیما نے تیز آواز میں کہا۔ ارشد نے اور بھی بلند آواز میں کہا، ’’اس کمرے میں اب رکھا ہی کیا ہے پگلی، تجھے پتہ نہیں کہ ڈیڈی سارے زیورات، ہیروں کی مالا اور نقدی تو باتھ روم میں ٹب کے نیچے تہہ خانے میں رکھ کر گئے ہیں۔ اطمینان سے یہیں چپ چاپ سو جا۔‘‘ سیما بولی، ’’سچ! مجھے نہیں معلوم تھا۔ تو اگر کبھی کسی پارٹی میں جانا پڑے تو کیا اتنا بڑا ٹب ہٹا کر ہیروں کی مالا نکالنا پڑے گی؟ یہ تو بہت مشکل کام ہے۔ اس ٹب کو ہٹانے کیلئے کم از کم چار طاقتور آدمیوں کی ضرورت تو ہوتی ہوگی۔‘‘ ارشد نے کہا، ’’ٹب ہٹانے کے بعد ایک بٹن وہیں کہیں لگا ہوا ہے۔ ڈیڈی کہہ رہے تھے کہ بٹن کو تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے کیونکہ اُسے دیوار میں اس طرح نصب کیا گیا ہے کہ اچھے سے اچھا، ذہین اور چالاک آدمی بھی دن میں اُسے تلاش کرے تو کم از کم آدھا گھنٹہ تو صرف ہوگا۔ اس بٹن کو دبانے کے بعد فرش سے پتھر ہٹ جائے گا اور وہیں سے اندر جانے کا راستہ ہے۔‘‘
 سیما نے پوچھا، ’’کیا تمہیں معلوم ہے کہ وہ بٹن کہاں لگا ہوا ہے؟‘‘
 ارشد نے کہا، ’’نہیں! مَیں نے ڈیڈی سے معلوم کرنے کی بہت کوشش کی مگر ڈیڈی اسے راز ہی رکھنا چاہتے ہیں۔ نہ جانے کیوں ممی کو بھی نہیں معلوم۔ ممی نے بھی معلوم کرنے کی کوشش کی تو ڈیڈی نے کہا، ’’مَیں بٹن کا پتہ کسی کو بھی نہیں بتاؤں گا۔ وہاں اگر تمہیں کسی چیز کی ضرورت ہو تو مجھ سے کہہ دو، مَیں دے دوں گا۔ اچھا اب رات بہت ہوگئی ہے، سو جاؤ۔ کل امتحان دینے جانا ہے۔‘‘
 اتنا کہنے کے بعد ارشد اور سیما بالکل چپ ہوگئے۔ تھوڑی دیر بعد ارشد آہستہ آہستہ دبے قدموں چلتا ہوا باتھ روم کی طرف بڑھا اور جھانک کر دیکھا۔ اس نے دیکھا کہ ڈاکو پتھر کے وزنی ٹب کو ہٹانے کی کوشش میں لگے ہوئے ہیں۔ اُس کا چہرہ خوشی سے دمک اٹھا۔ وہ اسی طرح دبے قدموں اور آگے بڑھا اور تیزی سے باتھ روم کے دروازے کو بند کرکے قفل لگا دیا۔ اس کے بعد وہ پولیس کو اطلاع دینے کے لئے باہر کے دروازے کی جانب بڑھنے لگا مگر دروازے کے پاس دو ڈاکوؤں کو پہرہ دیتے ہوئے دیکھ کر اُس کا دل بیٹھ گیا۔ وہ فوراً پلٹا اور اپنے بیڈ روم میں آکر اُس نے پولیس اسٹیشن فون کیا اور اُس نے فون پر انسپکٹر صاحب کو تمام تفصیلات سے آگاہ کر دیا اور یہ بھی کہہ دیا کہ دو ڈاکو باہر دروازے پر بھی پہرہ دے رہے ہیں۔
 تھوڑی دیر بعد چھ سات پولیس والے، انسپکٹر صاحب کیساتھ باتھ روم کے پائپ کے سہارے چڑھ کر کھڑکی کے ذریعے گھر میں داخل ہوگئے۔ پہلے تو انہوں نے دروازے پر کھڑے ہوئے دو ڈاکوؤں کو گرفتار کر لیا۔ پھر ارشد نے آگے بڑھ کر قفل کھول کر دروازہ کھول دیا۔ ڈاکوؤں کے باہر نکلتے ہی پولیس نے انہیں ہتھکڑی پہنا دی۔ انسپکٹر صاحب نے ارشد کی بہادری اور سمجھداری کی بہت تعریف کی۔ ارشد نے پوچھا، ’’مگر میری سمجھ میں ایک بات نہیں آئی، آپ حضرات نے دروازے سے داخل ہونا مناسب کیوں نہیں سمجھا؟‘‘
 انسپکٹر صاحب نے کہا، ’’اس لئے کہ تم نے خود ہی بتایا تھا کہ دو ڈاکو دروازے پر پہرہ دے رہے ہیں۔ اگر صدر دروازے سے گھر میں داخل ہونے کے بارے میں سوچتے تو ڈاکوؤں کو پکڑنے میں ناکام رہتے، ہمیں دور سے آتا دیکھ کر پہرہ دینے والے ڈاکو شور مچانا شروع کر دیتے جس کی وجہ سے اندر باتھ روم میں ٹب ہٹانے والے ڈاکو سمجھ جاتے کہ انہیں تم نے بیوقوف بنایا ہے۔ پھر وہ کسی طرح دروازہ توڑ کر تمہیں بندوق کا نشانہ بنا دیتے۔ اس طرح تمہاری ہوشیاری بے کار جاتی۔‘‘ اس طرح خطرناک ڈاکوؤں کو پولیس گرفتار کرکے تھانے لے گئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK