Inquilab Logo

اُمنگ پیدا ہوگئی

Updated: February 25, 2023, 10:51 AM IST | Yesra Asad | Mumbai

فاطمہ اور فریحہ سہیلیاں تھیں۔ فاطمہ ذہین تھی، یہ بات فریحہ کو پسند نہیں تھی، وہ اس کی کامیابی سے جلن محسوس کرنے لگی تھی۔ دونوں بارہویں کا امتحان دے رہی تھیں، اس دوران فریحہ نے فاطمہ کو پھنسانے کی کوشش کی اور

photo;INN
تصویر :آئی این این

افسوس! جو مَیں نے اس   پر بھروسہ کیا تھا.... مَیں نے ہمیشہ اسے اپنی ایک اچھی دوست کی طرح جانا اور مانا.... اور ہر معاملے میں اسے مقدم رکھا، لیکن اس نے مجھے میری محبت کا میرے مان کا یہ صلہ دیا....‘‘ وہ مسلسل روہانسی آواز میں بولے جارہی تھی۔ اسے اپنے سارے خواب و خیال شیشے کی طرح چکنا چور ہوتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔
 ’’بیٹا! مَیں نے ہمیشہ سے تمہیں یہی بات سمجھانے کی کوشش کی، مَیں نے ہمیشہ اس کی آنکھوں میں تمہارے لئے حسد اورنفرت کے علاوہ کچھ بھی نہیں دیکھا، وہ بظاہر تمہاری کامیابیوں پر خوشی کا اظہار کرتی لیکن حقیقت میں معاملہ اس کے برعکس ہوتا تھا۔ حتیٰ کہ تم نے اس پر اندھا اعتماد کرکے اسے ہی سب کچھ سمجھ ڈالا.... خیر جو ہوا اسے دفع کرو اور اللہ پر یقین رکھو۔ ان شاء اللہ اب جو ہوگا بہتر ہوگا۔‘‘ شکیلہ نے قدرے بیزاری سے اپنی بڑی بیٹی فاطمہ کو تسلی دی جو گھنٹوں سے ایک ہی رٹ لگائے ہوئے تھی۔
 ’’امی! لیکن وہ تو میری بہت اچھی دوست تھی، مَیں نے ہمیشہ اسے اپنی سب دوستوں پر مقدم رکھا.....‘‘ اس نے پھر جھنجلا کر وہی بات دہرائی۔
 ’’بیٹا! وہ تمہارے ساتھ مخلص نہیں تھی، وہ صرف تمہاری دوست تھی، اور ہر دوست مخلص نہیں ہوتا.... کچھ لوگ ضرورت کے لئے آپ کے دوست ہوتے ہیں اور کچھ مخلص.... جو مطلبی ہوتے ہیں وہ صرف جھوٹی محبتوں کا سہارا لے کر اپنی ضرورت پوری کرکے اپنا راستہ ناپ لیتے ہیں، اور جو مخلص ہوتے ہیں وہ آپ کی محبت میں اپنی ضرورتیں اور خواہشات تک قربان کر دیتے ہیں.... اسی لئے کہا جاتا ہے کہ مخلص دوست ملنا بہت مشکل ہے!‘‘ شکیلہ نے اس دفعہ قدرے نرمی سے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کی باتوں کو سن کر فاطمہ نے ایک سرد آہ بھری اور پھر کچھ کہنے سے قاصر رہی۔ 
 فاطمہ اور فریحہ اس سال بارہویں جماعت کا امتحان دے رہی تھیں۔ دونوں کی ملاقات تقریباً دو سال قبل اس وقت ہوئی تھی جب دونوں نے ہائی اسکول کے بعد شہر کے انٹر میڈیٹ کالج میں داخلہ لیا تھا۔ابتدا میں تو ان میں کوئی خاص دوستی نہ تھی بس رسمی دعا سلام ہو جاتی تھی، لیکن یہ دوستی اس وقت تیزی کے ساتھ بڑھنے لگی جب فریحہ نے فاطمہ کی ذہانت کو بھانپ لیا اور اس کی کامیابیاں اسے کھٹکنے لگیں۔ لہٰذا وہ اس کے ساتھ آستین کے سانپ جیسا معاملہ کرنے لگی.... وہ بظاہر تو ہر معاملے میں اس کا ساتھ دیتی لیکن اندر ہی اندر اس کی دشمن تھی۔ اور رہی فاطمہ تو اسے فریحہ کی چالوں کا ہرگز علم نہیں تھا، وہ ہمیشہ اس کے ساتھ ایک اچھی دوست کی طرح رہتی اور حسنِ سلوک کا مظاہرہ کرتی۔
 بہر حال کہتے ہیں نہ کہ وقت استاد ہوتا ہے وہ انسان کو سب کچھ سکھا دیتا ہے، بالکل ویسا ہی فاطمہ کے ساتھ ہوا۔ آج انٹرمیڈیٹ والوں کا لاسٹ پیپر تھا۔ تمام مضامین کی طرح اس مضمون میں بھی فاطمہ نے خوب اچھی تیاری کی تھی، اور اس کے تمام پیپرز تقریباً بہت ہی اچھے جارہے تھے۔اس کی انہیں کامیابیوں کو دیکھ کر فریحہ کے اندر ایک عجیب سی ہلچل مچی ہوئی تھی اور اُس کے شیطانی دماغ نے اس کی سالوں کی محنت کو ملیامیٹ کرنے کیلئے بہرحال ایک ترکیب نکال ہی ڈالی۔
 صبح جب تمام اسٹوڈنٹس امتحان ہال میں اپنی اپنی نشست گاہ پر بیٹھ گئے تو فریحہ نے جان بوجھ کر سب کی نظروں سے بچ کر فاطمہ کی سیٹ کے نیچے ایک کاغذ پھینکا جس پر آج ہی کے پیپر سے متعلق کچھ لکھا ہوا تھا۔ فاطمہ کو اس کا علم نہیں ہوا اور وہ اپنے سوالات حل کرنے میں مصروف ہوگئی۔ اتفاق سے امتحان نگراں کی ٹیم جیسے ہی کلاس میں داخل ہوئی ان کی نظر فوراً اسی کاغذ پر پڑی اور چونکہ وہ فاطمہ ہی کی سیٹ کے نیچے تھا اس لئے ان لوگوں نے اس کی کاپی پر لال قلم چلا کر اسے فوراً کلاس سے باہر کر دیا۔ اس نے اپنے بے گناہ ہونے کی سیکڑوں صفائیاں دی لیکن انہوں نے ایک نہ سنی۔ تقریباً ڈھائی گھنٹہ کلاس سے باہر بیٹھ کر رو رو کر اس کا برا حال ہوگیا تھا۔ امتحان ختم ہونے کے بعد تقریباً تمام لڑکیوں نے رونما ہونے والے واقعے پر غم کا اظہار کیا، ما سوائے فریحہ کے کہ اس نے اس سے نظریں ملانا تک گوارا نہیں کیا، حالانکہ فاطمہ کو توقع تھی کہ وہی سب سے پہلے اس کے پاس آئے گی۔
 شام کے تقریباً پانچ بج رہے تھے۔ فاطمہ ابھی انہیں سوچوں میں گم تھی کہ تبھی فون کی گھنٹی بجی، ’’بیٹا مبارک ہو آپ کو.... میں نے بہت کوشش کر کے آپ کے بیک پیپر کا بندوبست کیا ہے، ان شاء اللہ اب آپ اس امتحان کو بیک پیپر کی صورت میں دوبارہ دے سکتی ہیں۔‘‘ پرنسپل تبریز نے نہایت والہانہ انداز میں اسے خوش خبری سنائی، ’’اور رہی بات اس کاغذ کی تو بہت پوچھ گچھ کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ وہ کاغذ فریحہ کا تھا اور اس نے ہی آپ کو پھنسانے کے لئے اسے وہاں پر پھینکا تھا۔ بیٹا! میں نے یہ آپ کو اس لئے بتانا مناسب سمجھا تاکہ آئندہ آپ ایسے لوگوں سے اور ان کی شیطانی چالوں سے ہوشیار اور خود کو محفوظ رکھیں۔ امتحان گاہ میں بیٹھنے سے قبل اور اس کے بعد بھی آپ تمام اسٹوڈنٹس کی ذمے داری ہوتی ہے کہ آپ اپنے آس پاس وقفے وقفے سے یہ تمام چیزیں چیک کرتے رہیں کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ کسی نے آپ کو پھنسانے کے لئے کوئی ایسی چیز آپ کے اردگرد پھینک دی ہو یا اتفاقاً کوئی چیز پہلے ہی سے پڑی ہو.... اپنے ہاتھ، ایڈمٹ کارڈ اور پین بیگ وغیرہ کو چیک کرلیا کریں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ نے انجانے میں اس پر کچھ ایسا نہ لکھ دیا ہو جو بعد میں آپ کے لئے پریشانی کا باعث بنیں۔ خیر جو ہوا اس سے آپ سبق حاصل کریں اور آئندہ اور اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے لئے خود کو اور بہتر طریقے سے تیار کر لیں۔‘‘  اس دفعہ انہوں نے نہایت سنجیدگی سے اسے نصیحت کی۔
 ان کی باتوں کو سن کر گویا اس کے اندر ایک نئی ہمت اور اُمنگ پیدا ہو گئی۔ لہٰذا ان کی نصیحتوں کو گرہ باندھ کر اب وہ اپنی کامیابی کیلئے پہلے سے زیادہ کمر بستہ ہوگئی۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK