Inquilab Logo Happiest Places to Work

چاند کی سیر

Updated: December 10, 2022, 10:15 AM IST | Kishore Sultana | MUMBAI

سائنس کی کلاس میں نظام ِ شمسی کے بارے میں بتایا جاتا ہے۔ اس سے متعلق باتیں سن کر شاہد کے دل میں سیاروں کے بارے میں معلومات حاصل کرنے اور سورج کے تعلق سے تحقیق کی خواہش پیدا ہوتی ہے۔ اسکول آنے کے بعد شاہدسائنس کی کتاب لے کر بیٹھ جاتا ہے اور اپنی ماں سے اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ اسے خلاباز بننا ہے۔ اس خیال کے ساتھ وہ سو جاتا ہے اور اچانک....

Moon walk; Photo: INN
چاند کی سیر؛تصویر:آئی این این

سر ایوب نے سائنس کے پیریڈ میں نظام شمسی کے بارے میں بتایا تھا۔ شاہد کو یہ سبق بہت پسند آیا اور وہ سوچتا رہا کہ یہ نظام ِ شمسی بھی کتنا پُر اسرار سلسلہ ہے۔ مَیں ضرور بڑا ہو کر خلاباز بنوں گا۔ سیاروں کے بارے میں معلومات حاصل کروں گا۔ سورج کی تحقیق کروں گا۔
 اسکول سے واپسی پر وہ یہی باتیں سوچتا ہوا گھر آیا۔ کپڑے تبدیل کئے، کھانا کھایا اور سائنس کی کتاب لے کر پڑھنے بیٹھ گیا۔
 امّی بولیں ’’آج کیا خاص بات ہے جو تم فوراً ہی پڑھنے بیٹھ گئے ہو....!‘‘ ’’امّی جان! مَیں خلا باز بنوں گا۔ آج کلاس میں نظام ِ شمسی کا سبق پڑھایا گیا ہے۔ مجھے بہت اچھا لگا ہے۔‘‘
 امی بولیں، ’’ٹھیک ہے اگر تم یونہی دل لگا کر پڑھتے رہے تو ضرور اپنے ارادے میں کامیاب ہو جاؤ گے۔‘‘ ’’سچ؟ امی جان!‘‘ شاہد نے بڑے جوش سے کہا۔ ’’ہاں، ہاں کیوں نہیں....‘‘ یہ کہہ کر امّی کام میں مصروف ہوگئیں۔
 شاہد بھی پڑھنے میں مشغول ہوگیا۔ اس نے کاپی پر سورج، چاند اور ستاروں کی تصویریں بنائیں پھر انہیں غور سے دیکھتا رہا۔ اسی طرح رات ہوگئی اور وہ اپنے بستر پر لیٹ گیا لیکن اُسے نیند نہیں آرہی تھی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ کسی نہ کسی طرح آسمان پر پہنچ جائے۔
 وہ بستر سے اٹھا اور پارک میں آکر کھڑا ہوگیا۔ چاند کو غور سے دیکھنے لگا۔ اور کافی دیر تک وہ چاند کو دیکھتا رہا۔ اب اس کے ہاتھ میں خود بخود ایک ٹیلی اسکوپ بھی آگئی۔ اس نے ٹیلی اسکوپ سے چاند کو غور سے دیکھنا شروع کیا۔ یہاں تک کہ اس کے سامنے مختلف رنگوں کے دائرے بننا شروع ہوگئے۔ لال، پیلے، ہرے، نیلے، پھر اسے محسوس ہوا کہ اس کے بازوؤں میں کوئی چیز آکر اٹک گئی ہے۔ یہ چیز ایک خلا باز کا خلائی سوٹ تھا۔ شاہد نے جلدی سے اُسے پہن لیا۔ اب اس کے ہاتھوں میں ٹیلی اسکوپ نہیں تھی، بلکہ اس کے پاس ایک راکٹ کھڑا تھا۔ راکٹ میں سے ایک سیڑھی باہر نکلی اور شاہد اس سیڑھی کے ذریعے سے راکٹ کے اندر داخل ہوگیا، اور پاس ہی ایک سیٹ پر بیٹھ گیا۔ شاہد کے بیٹھتے ہی ایک گڑگڑاہٹ سی ہوئی اور راکٹ ہوا میں اڑنے لگا۔
 چودھویں رات کا چاند بڑی آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا اور اپنی چاندنی سے زمین کو روشن کر رہا تھا۔ اسی چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی میں ایک راکٹ اپنا سفر طے کر رہا تھا اور شاہد زمین کے نظارے دیکھ دیکھ کر لطف اندوز ہو رہا تھا۔
 راکٹ جوں جوں بلندی پر اڑتا گیا، رات کے نظارے اور بھی پُراسرار ہوتے گئے۔ شاہد ان نظاروں میں کھو گیا۔ آخر راکٹ چاند میں داخل ہوگیا۔ راکٹ کے رکتے ہی سیڑھی باہر نکلی اور شاہد سیڑھی سے اتر کر چاند کی سطح پر پہنچ گیا۔ ’’ارے یہ کیا! چاند کے اندر تو بالکل اندھیرا ہے۔‘‘ تھوڑی دیر تک تو شاہد کو کچھ نظر نہیں آیا پھر آہستہ آہستہ اسے اپنے اردگرد کے ماحول نظر آنا شروع ہوگیا۔ اب اتنا زیادہ اندھیرا نہیں تھا بلکہ زمین کی طرح کا ماحول تھا۔ شاہد نے سوچا، ٹھیک ہے چاند کی اپنی روشنی تو نہیں ہے یہ تو ہماری زمین کی طرح سورج کی روشنی ہی سے چمکتا ہے۔
 اتنے میں چاند کی زمین میں اُسے کچھ ہری ہری سی مخلوق پھرتی ہوئی نظر آئی۔
 شاہد کو ہنسی آگئی۔ چاند پر بھلا کون رہتا ہے؟ یہ سوچ کر ذرا آگے بڑھا تو اُسے ایک آواز آئی ’’کون ہو تم؟‘‘
 ’’مَیں شاہد ہوں۔‘‘ شاہد نے جواب دیا۔
 اس کے بعد شاہد کے سامنے سبز رنگ کے بونے کھڑے تھے۔ شاہد نے پوچھا، ’’آپ لوگ کون ہیں؟ اور کیا چاند پر رہتے ہیں؟‘‘
 ’’نہیں ہم یہاں سے ذرا فاصلے پر ایک ستارے میں رہتے ہیں۔ ہم لوگ تو چاند کی سیر کرنے آئے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ تم انسان ہو۔ چلو اچھا ہوا، تم سے ملاقات ہوگئی۔‘‘
 دوسرا بونا بولا، ’’ہم سوچ رہے تھے کہ چاند کے بعد ہم بھی زمین پر جائیں گے اور انسانوں کے بارے میں معلومات حاصل کریں گے۔‘‘
 شاہد نے بڑے غور سے سبز بونے کو دیکھا اور کہا، ’’آیئے یہاں کسی جگہ بیٹھ کر باتیں کرتے ہیں۔‘‘ ’’تم زمین کے کون سے حصے سے آئے ہو؟‘‘ سبز بونے نے پوچھا۔
 ’’میرا تعلق ایشیاء سے ہے اور مَیں مسلمان ہوں۔‘‘ شاہد نے جواب دیا۔
 ’’مَیں نے مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے اور ہاں کچھ دن پہلے ہماری ملاقات ایک فرشتے سے ہوئی تھی۔ اُس نے ہمیں بتایا تھا کہ ایک دن انسان چاند، سورج اور سیاروں پر حکومت کرے گا۔‘‘ بونا بولا۔
 ’’وہ کیسے؟‘‘ شاہد نے پوچھا۔
 ’’یہ کوئی مشکل بات نہیں ہے۔ بس اس کے لئے محنت اور تعلیم کی ضرورت ہے۔‘‘
 ’’یہ تو سب ہی جانتے ہیں کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور سب سے زیادہ عقل بھی انسان کے پاس ہے۔‘‘ سبز بونے نے شاہد کو راز دارانہ انداز میں سمجھاتے ہوئے کہا۔
 شاہد سوچ میں پڑ گیا۔ پھر اُس کے ذہن میں آیا، ہاں ایسا ہوسکتا ہے۔
 شاہد نے بتایا، ’’زمین بہت ہی خوبصورت ہے۔ ہر طرف سبزہ ہی سبزہ ہے کہیں بلند پہاڑ ہیں۔ کہیں دریا ہیں تو کہیں بڑے بڑے سمندر ہیں، زمین پر اور بھی بہت سی مخلوق آباد ہے، چرندے، پرندے، درندے اور سب سے بڑھ کر انسان ہیں۔‘‘ سبز بونے بڑے شوق سے شاہد کی باتیں سن رہے تھے۔ ابھی باتیں ہو رہی تھیں کہ ایک اور سبز بونا دوڑتا ہوا آیا اور بولا، ’’کافی دیر ہوگئی ہے۔ چلو سب چلتے ہیں۔‘‘
 تمام سبز بونے کھڑے ہوگئے۔ شاہد سے ہاتھ ملایا اور کہا، ’’تم ہمارے دوست بن گئے ہو۔ اگر ہم زمین پر آئے تو تم سے ضرور ملیں گے۔ خدا حافظ۔‘‘ کہا اور سبز بونے چلے گئے۔
 شاہد بھی اپنے راکٹ کے پاس آیا اور سیڑھی کے ذریعے سے راکٹ میں بیٹھ کر ایک نظر چاند کی سطح پر ڈالی اور راکٹ کو اسٹارٹ کر دیا۔ ایک زور دار گڑگڑاہٹ ہوئی اور شاہد کو جھٹکا لگا۔ شاہد کی آنکھ کھل گئی۔ شاہد گھبرا کر بستر سے اٹھ بیٹھا، ’’اوہو، تو مَیں یہ سب خواب دیکھ رہا تھا۔‘‘ وہ بستر سے اٹھا، پانی پیا اور اتنے میں اذان کی آواز کانوں میں آئی۔
 شاہد نے وضو کرکے نماز پڑھی اور خدا سے دعا مانگی، ’’اے اللہ مجھے توفیق دے کہ مَیں خوب دل لگا کر پڑھوں۔‘‘ اتنے میں اس کی امی جان بھی جاگ گئیں۔ شاہد نے انہیں اپنا خواب سنایا۔
 امی جان نے شاہد کو پیار کیا اور کہا، ’’بے شک یہ خواب تھا لیکن حقیقت بھی یہی ہے کہ اگر تم نے خوب محنت کی اور دل لگا کر پڑھا تو تمہارے لئے کوئی بھی کام مشکل نہیں رہے گا۔‘

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK