EPAPER
Updated: July 29, 2023, 11:12 AM IST | ishfaq Ahmad | Mumbai
نگار اپنے وہم کی وجہ سے اپنا تعلیمی نقصان کر رہی تھی پھر ایک دن....
جب سے شبیر صاحب کا تبادلہ ایک چھوٹے سے گاؤں میں ہوا تھا وہ محسوس کر رہے تھے کہ ان کی بیٹی نگار بہت اداس رہتی ہے۔ وہ اسکول میں بھی جماعت کے ساتھیوں کے ساتھ گھل مل کر نہیں رہتی بلکہ ہمیشہ تنہا نظر آتی ہے۔ اس دن جب نگار کی امی سے انہوں نے نگار کی خاموشی اور اداسی کی وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ ہماری بیٹی کو اپنی سہیلیوں سے بچھڑنے کا غم ہے۔ یہ بات جاننےکے بعد شبیر صاحب نگار کو اس کی نانی کے یہاں بھیجنے کا سوچتے ہیں تاکہ وہ اچھی تعلیم حاصل کرسکے۔ جب نگار کو پتہ چلا کہ وہ اب نانی جان کے ہی گھر رہے گی اور وہیں تعلیم حاصل کرے گی تو ایک لمحہ کے لئے اسے ماں باپ سے بچھڑنے کا احساس ضرور ہوا لیکن اچھی اسکول میں اس کا داخلہ اور اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کی خواہش نے اس کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دی۔ یوں بھی وہ ہمیشہ موسم ِ گرما کی تعطیلات نانی جان کے ہاں ہی گزارا کرتی تھی اس لئے وہ وہاں کے ماحول سے آشنا تھی۔ علاوہ ازیں نانی جان کے پاس پڑوس میں رہنے والی چند لڑکیوں کی قربت بھی اسے حاصل تھی۔ اتوار کے دن نگار کے والد اور والدہ نگار کو ساتھ لئے نانی جان کے شہر آئے یہاں انہوں نے چاند بی بی اردو پرائمری اسکول میں نگار کا داخلہ چوتھی جماعت میں کر دیا اور نگار کو نانی جان کے پاس چھوڑ کر چلے گئے۔
نگار نے نانی جان کے گھر کے ایک کمرے میں اپنا سامان قرینے سے سجا دیا۔ نگار کے ماموں جان کا انتقال تو ان کے بچپن ہی میں ہوچکا تھا۔ دو سال قبل نانا جان بھی اللہ کو پیارے ہوگئے تو نانی جان اس لمبے چوڑے گھر میں اکیلی رہ گئیں۔ وہ بڑی سیدھی سادھی اور بااخلاق خاتون تھیں، پڑھی لکھی نہ تھیں اور پرانے رسم و رواج اور خیالات کو ابھی بھی اپنائے ہوئے تھیں۔
دوسرے دن نگار اسکول جانے کے لئے تیار ہو کر جب نانی جان کے کمرے میں انہیں سلام کرنے کے لئے داخل ہوئی تو دیکھا وہ خود بھی اس کے ساتھ چلنے کے لئے تیاری میں مصروف ہے۔ نگار کو دیکھتے ہی کہنے لگیں، ’’تم اکیلی اسکول نہیں جایا کرو گی، مَیں خود تمہیں روزانہ اسکول چھوڑ آؤں گی۔‘‘
اس گھر میں تو بس ایک ہی حکم چلتا تھا.... نانی جان کا حکم۔ گھر میں دوسرا فرد تھا بھی نہیں کہ اس کے سامنے فریاد پیش کی جاسکے لہٰذا بلا چوں چرا نانی جان کا حکم مان کر اس پر عمل کر لیا جاتا۔ اب وہ روزانہ نانی جان کے ساتھ اسکول جاتی اور چھٹی ہوتے ہی اپنی سہیلیوں کے ساتھ گھر آجاتی یہی اس کا معمول تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے تین ماہ کا عرصہ پلک جھپکتے ہی گزر گیا۔ ایک دن کی بات ہے نگار معمول کے مطابق جب تیار ہو کر نانی جان کے کمرے میں گئی تو دیکھا نانی جان سو رہی ہیں اور ان کا بدن بخار سے تپ رہا ہے۔ اس نے فوراً شگفتہ آنٹی کو آواز دی۔ شگفتہ خود ڈاکٹر تھیں اور پڑوس ہی میں رہتی تھیں جیسے ہی نگار کی آواز سنی دوڑی دوڑی آئیں۔ نانی جان کا معائنہ کرکے اپنے پاس رکھی ہوئی گولیاں دیں اور آرام کرنے کی ہدایت دے کر جانے کے لئے اٹھی ہی تھیں کہ نانی جان نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا اور کہنے لگیں، ’’بیٹا! جب تک میری طبیعت سنبھلتی نہیں ہے تم میری نگار کو اسکول پہنچا دیا کرو۔‘‘ شگفتہ نے کہا، ’’نانی جان آپ نگار کی فکر کیوں کرتی ہیں۔ مَیں خود اسے اسکول پہنچا دیا کروں گی۔‘‘
’’بیٹا! نگار چلو مَیں تمہیں اسکول چھوڑ آتی ہوں۔‘‘ یہ کہہ کر شگفتہ نے نگار کی انگلی تھامی اور نکل پڑیں۔ ابھی یہ دونوں گھر سے نکل کر محلے کی گلی کے نکڑ پر آئے ہی تھے کہ نگار نے دیکھا ایک بلی ان کے سامنے سے راستہ کاٹتی ہوئی گزر گئی ہے۔ نگار نے جب یہ منظر دیکھا تو ایک لمحے کے لئے وہ چونک پڑی اور شگفتہ کے ہاتھ سے انگلی کھینچ کر اپنی جگہ کھڑی ہوگئی۔
شگفتہ نے حیرت سے اس کی جانب دیکھا اس کے مسکراتے ہوئے چہرے پر اچانک اداسی چھا گئی، ’’کیوں کیا ہوا؟ پیر میں کانٹا چبھ گیا ہے کیا؟‘‘ ’’آنٹی آپ نے دیکھا نہیں۔ ابھی ابھی ایک بلی نے ہمارا راستہ کاٹ دیا ہے۔‘‘
’’ہاں ہاں تو کیا ہوا اس طرح کے جانور ادھر ادھر تو گھومتے ہی رہتے ہیں۔‘‘ شگفتہ نے لاپروائی سے جواب دیا۔
’’آنٹی مَیں تمہیں کیسے سمجھاؤں.... دوسرے جانوروں کی بات اور ہے۔ یہ بلی ہے بلی۔ اگر یہ راستہ کاٹ دیتی ہے تو ہمارا آگے جانا گویا کوئی مصیبت مول لینا ہے۔ اب میں اگر اسکول چلی جاؤں تو ضرور میرے ساتھ بھی کچھ برا ہوگا۔‘‘
’’تو کیا آج تم اسکول نہیں جاؤ گی؟‘‘ شگفتہ نے تعجب سے پوچھا۔ ’’نہیں، آنٹی آج میں اسکول نہیں جاسکتی۔ جب بھی بلی ہمارا راستہ کاٹتی ہے نانی جان مجھے گھر واپس لے آتی ہیں۔‘‘ یہ سن کر شگفتہ نے زور دار قہقہہ لگایا، ’’اچھا تو پھر تم اس طرح خوب چھٹیاں منا لیتی ہوگی۔‘‘ ’’ہاں ہاں کیوں نہیں کچھ برا ہونے سے تو اچھا ہے گھر پر ہی آرام کر لیا جائے۔ اب دیکھئے نا کل ہی کی بات ہے نانی جان فجر کے بعد دودھ لانے جا رہی تھیں۔ ایک بلی نے ان کا راستہ کاٹ دیا۔ لیکن اندھیرا ہونے کی وجہ سے وہ دیکھ نہ سکیں اور آگے بڑھ گئیں بعد میں انہیں احساس ہوا تو گھر آکر بہت پچھتائیں لیکن اب پچھتانے سے کیا ہوگا۔ ان کے ساتھ کچھ برا ہونا ہی تھا۔ آج آپ نے دیکھ لیا۔ صبح سے بستر پر ہیں اور بدن بخار سے تپ رہا ہے۔‘‘
’’اچھا تو اس لئے تمہاری نانی جان کو بخار آیا ہے؟‘‘ شگفتہ نے راز دارانہ انداز میں پوچھا۔ ’’لیکن تمہیں کچھ نہیں ہوگا، تم آج اسکول ضرور جاؤ گی۔‘‘ یہ کہہ کر شگفتہ نے نگار کا ہاتھ زور سے دبوچ کر اسے اپنی جانب کھینچ کر چلنے لگی۔
’’لیکن....‘‘ نگار چلائی۔ ’’لیکن ویکن کچھ نہیں۔ ارے پگلی سب وہم ہے۔ آج ہم سائنس اور ٹیکنالوجی کے دور میں ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں۔ نانی جان کے ذہن و دل پر فرسودہ خیالات کے گہرے اندھیروں نے پردہ ڈال رکھا ہے وہ تعلیم یافتہ بھی نہیں ہیں لیکن تم تو تعلیم حاصل کر رہی ہو۔ سمجھدار بھی ہو۔ کیا تم بھی ان کے خیالات کی حمایت کرنے لگی! تمہیں سوچنا چاہئے اللہ کی مرضی کے بغیر کچھ نہیں ہوگا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اشرف المخلوقات بنایا ہے اس نے ہمیں عقل، فہم اور فراست عطا کی ہے۔ دنیا میں یہ ساری مخلوقات اور چیزیں ہماری ضروریات اور فائدے کیلئے بنائی گئی ہیں۔‘‘ شگفتہ یہ باتیں ابھی نگار سے کر ہی رہی تھیں کہ مدرسہ آگیا۔ نگار پھر ایک لمحہ کے لئے رک کر اپنی آنٹی کو دیکھنے لگی گویا کہہ رہی ہو آنٹی مَیں پہلی بار بلی کے کاٹے ہوئے راستے سے آگے بڑھ کر اسکول آئی ہوں۔
’’بیٹا! تم فکر نہ کرو۔ ہمارا حامی و ناصر اور محافظ تو اللہ تعالیٰ ہے ان شاء اللہ ہمیں کچھ نہیں ہوگا۔ شوق سے جاؤ اور دلچسپی کے ساتھ پڑھو۔‘‘ آنٹی کے اصرار پر نگار اسکول کے احاطہ میں داخل ہوگئی اور شگفتہ سلامتی کا ہاتھ ہوا میں ہلا کر گھر لوٹ آئی۔ شام میں نگار جب اسکول سے گھر واپس لوٹی تو اس کی سہیلیاں بھی اس کے ساتھ تھیں نگار کا چہرہ خوشی سے کھلا ہوا تھا۔ گھر آکر اس نے اپنا بستہ تپائی پر رکھا نانی جان کو آواز دی۔ لیکن وہ سو رہی تھیں۔ وہ دوڑی دوڑی پڑوس میں شگفتہ آنٹی کے ہاں چلی گئی، ’’آنٹی آنٹی! آج تو غضب ہوگیا!‘‘ ’’کیا کوئی آفت ٹوٹ پڑی؟‘‘ شگفتہ نے باورچی خانے سے آواز لگائی۔ ’’نہیں.... نہیں آنٹی! یہ دیکھئے میری مارک شیٹ۔ آج اسکالرشپ کا رزلٹ آیا۔ ہماری جماعت سے پندرہ لڑکیوں نے امتحان میں شرکت کی تھی ان میں سے سب سے زیادہ نمبرات مجھے ملے ہیں۔‘‘ اس نے یہ سب ایک ہی سانس میں کہہ دیا۔ ’’ارے واہ! کیا بات ہے۔ مبارک ہو۔‘‘ شگفتہ نے اسے اپنے پہلو میں سمیٹتے ہوئے کہا۔
’’اور وہ بلی....‘‘ شگفتہ نے ٹہوکا دے کر پوچھا۔ نگار کے ذہن پر جمی ہوئی دقیانوسی خیالات سے پیدا ہوئے وہم کی گرد صاف ہوچکی تھی اس نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’آنٹی آج مجھے یقین ہوگیا ہے وہ بلی ولی ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔ ہمارا اچھا برا کرنے والی صرف اللہ کی ذات ہے۔ ایک اور بات سنئے۔‘‘
’’کہو.... کہو....‘‘
’’وہ بلی ہے نا۔ جو ہمیشہ راستہ کاٹا کرتی تھی آج جب ہم اسکول سے لوٹ رہے تھے تو دیکھا وہ راستہ پر مری پڑی ہے۔‘‘
شگفتہ نے اسے اپنے پاس بٹھایا اور مسکراتے ہوئے شفقت آمیز لہجہ میں پوچھا۔ نگار اب تم ہی بتاؤ آج کا دن تمہارے لئے منحوس تھا یا پھر وہ بلی کیلئے۔ اس بلی کا راستہ کس نے کاٹا تھا؟‘‘ یہ سن کر نگار کھلکھلا کر ہنس پڑی اور پھر دیر تک ہنستی رہی!