Inquilab Logo

عاطف کا طوطا

Updated: June 26, 2021, 4:53 PM IST | Aadil Hayaat

عاطف کو طوطا پالنے کا شوق پیدا ہوجاتا ہے۔ وہ مسلسل اپنے ابو سے فرمائش کرتا ہے۔ عاطف کے ابو کو لگتا ہے کہ طوطے کی وجہ سے عاطف کی تعلیم متاثر ہوگی اور آخر میں وہی ہوتا ہے۔ پڑھئے مکمل کہانی

Parrot.Picture:INN
طوطا۔تصویر :آئی این این

عاطف نے اپنے پڑوس میں طوطا کیا دیکھا، اسے بھی طوطاپالنے کا شوق پیدا ہوگیا۔ وہ مسلسل اپنے ابو سے فرمائش کرنے لگا۔
 ابو اسے سمجھاتے، بیٹا اس شوق میں تمہارا بہت وقت ضائع ہوگا، تم اپنی پڑھائی ٹھیک طریقے سے نہیں کر سکوگے۔مگر اس نے اپنی ضد نہیں چھوڑی۔ ایک دن تو حد ہی ہوگئی۔ وہ کھانا پینا چھوڑ کر طوطا کی رٹ لگانے لگا۔ آخر کار شام کو اس کے ابو ایک طوطا گھر لے آئے۔ 
 طوطے کے آتے ہی وہ سب کچھ ہونے لگا جس کا خدشہ تھا۔ عاطف کا سارا دن طوطے کی دیکھ بھال میں گزرنے لگا۔ اسے کھانے کا ہوش رہا نہ سونے کا۔ وہ اسکول بھی دیر سے جانے لگا۔ اس طرح بہت سے دن گزر گئے اور امتحان قریب آگیا۔ جیسے تیسے کر کے اس نے امتحان تو دے دیا مگر پاس نہ ہوسکا۔ اس کے باوجود اس کی آنکھیں نہ کھلیں۔ پہلے ہی کی طرح دن بھر طوطے کے ساتھ چپکا رہتا۔ 
 ابو نے اسے سمجھانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ آخر کار انہوں نے بہت سوچا اور ایک ترکیب ان کی سمجھ میں آگئی جس کو عمل میں لانے کے لئے انہیں مہینوں سخت محنت کرنی پڑی اور ایک دن سچ مچ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے۔ ایسے وقت، جب عاطف گھر میں نہیں ہوتا یا پھر سویا ہوتا تو ابو طوطے کو بعض ایسے جملے سکھاتے رہتے جنہیں وہ موقع محل کے اعتبار سے مختلف اوقات میں دہرا سکے۔ طوطے نے بھی سارے جملے اچھی طرح رٹ لئے اور موقع کا انتظار کرنے لگا۔ 
 ایک دن صبح کے وقت ہلکی ہلکی پھواریں پڑ رہی تھیں۔ سبھی بچے گھر سے باہر موسم کا مزہ لے رہے تھے، مگر عاطف اب بھی سورہا تھا۔ ابو کئی بار آکر اسے جگا چکے تھے۔ مگر اس پر کوئی اثر نہیں ہوا تھا۔ اسی وقت اچانک طوطے کی آواز کمرے میں گونج اٹھی ’’عاطف!سویا ہی رہے گا، اُٹھ، دھوپ نکل آئی ہے۔‘‘
 طوطے نے اس جملے کو بار بار دہرایا تو عاطف کی نیند کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ وہ اٹھ بیٹھا اور آنکھیں مل مل کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ کمرہ میں طوطے کے علاوہ کوئی اور نہیں تھا۔ اسے لگا کہ خواب میں یہ سب سنا ہے اور وہ پھر سے سونے کی کوشش کرنے لگا۔ تبھی طوطے کی آواز پھر سے آئی ’’چل اٹھ، جاکر برش کر۔‘‘ 
 عاطف ہڑبڑا گیا اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر طوطے کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے حیرت ہوئی کہ طوطے کو کیا ہوگیا ہے اور وہ ایسی زبان کیوں بول رہا ہے؟ لیکن اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا۔ اسی درمیان طوطے نے پھر سے ہانک لگائی تو اس نے بستر چھوڑ دیا اور سیدھے باتھ روم کی راہ لی۔ برش کرنے کے بعد نہادھوکر ناشتے کی میز پر جاکر بیٹھ گیا۔ ابو کے ساتھ اس نے ناشتہ کیا اور پھر پنجرے کے پاس چلا آیا۔
 طوطا بیٹھا اونگھ رہا تھا۔ عاطف کو دیکھ کر چونک گیا اور اپنی گردن ہلانی شروع کردی۔ تبھی ابو نے نظریں بچا کر طوطے کو اشارہ کیا طوطے نے تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد کہا ’’اب میرے پاس کھڑا کیا کر رہا ہے، اسکول نہیں جانا ہے کیا؟‘‘ طوطے کی باتیں سن کر عاطف آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے حیرت ہورہی تھی۔ آج سے پہلے کبھی بھی اس نے طوطے کو ایسی باتیں کرتے نہیں سنا تھا۔ وہ سوچنے لگا، مگر اس کی سمجھ میں کچھ نہ آیا تو پوچھا ’’طوطے میاں! میں ساتھ میں کھیلنا چاہتا ہوں اور تم ہو کہ....‘‘ 
 طوطے نے عاطف کی باتیں سن کر اپنی گردن گھمالی اور اپنے سابقہ جملے دہرانے لگا۔ عاطف اسکول جانے کیلئے تیار تو ہوگیا لیکن سارا دن اس کے ذہن میں طوطے کے جملے گونجتے رہے۔ اسکول سے واپسی پر اس نے طوطے کے ساتھ مل کر کھیلنا چاہا مگر کامیابی نہیں ملی۔طوطے نے اس کی طرف دیکھا بھی نہیں۔ وہ اکیلے ہی ایک گیند کے ساتھ کھیلتا رہا۔ کھیلتے کھیلتے کافی وقت گزر گیا۔ اچانک طوطے کی آواز اس کے کانوں سے ٹکرائی ’’بس بھی کر، اپنا ہوم ورک تو کر لے۔‘‘ 
 عاطف کو ایک دم سے جھٹکا لگا۔ وہ ہڑبڑا گیا اور طوطے کی طرف پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھنے لگا۔ طوطا مسلسل اپنا جملہ دہرائے جارہا تھا۔ جھلاہٹ میں اس نے پنجرے کو جھٹکا دیا اور پڑھنے کی میز پر آکر بیٹھ گیا۔
 اس دن ابو کی خوشی کا ٹھکانا نہ رہا۔ جس طرح وہ چاہتے تھے، طوطے نے ٹھیک ویسے ہی کیا۔ اس کے بعد تو روزانہ کا معمول بن گیا۔ جیسے ہی طوطے کو محسوس ہوتا کہ عاطف کام سے جی چرارہا ہے، وہ اپنے رٹے ہوئے جملے دہرانے لگتا جسے سن کر عاطف اپنے کام میں لگ جایا کرتا تھا۔ 
 اس طرح کئی مہینے گزر گئے۔ ایک دن تنگ آکر عاطف نے پنجرے کا منہ کھول دیا اور طوطا پھڑپھڑا کر اُڑ گیا۔ اس وقت ابو برآمدے میں بیٹھے دھوپ کا مزہ لے رہے تھے۔ طوطا اڑتا ہوا ان کے پاس آیا۔ ابو نے اپنے ہاتھوں پر اٹھا کر اسے خوب پیار کیا اور اس کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ’’تمہاری اصل جگہ چھوٹا سا پنجرہ نہیں.... بلکہ یہ کھلا ہوا آسمان ہے.... جایئے کھلی فضا میں.... اور ہاں.... عاطف میاں سے بھی ملنے آجایا کیجئے گا.... وہ اب بھی آپ کو پیار کرتا ہے۔‘‘
 ابو کی باتیں سن کر طوطے نے پنکھ تولا اور اُڑ گیا۔ اونچائی پر جاکر اس نے گہری گہری سانسیں لیں اور آنکھوں سے اوجھل ہوگیا۔ n

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK