Inquilab Logo Happiest Places to Work

برے پھنسے

Updated: February 13, 2021, 11:02 AM IST | Fauzia Tabassum

یہ کہانی ایک لمبے بال والے لڑکے کی ہے جس کے والد اسے نائی کے پاس لے جاکر گنجا کروا دیتے ہیں۔ وہ دوستوں کے ڈر سے سر ڈھانکنے کیلئے ٹوپی خرید لاتا ہے۔ وہ ٹوپی اس کیلئے سر درد بن جاتی ہے۔ پڑھئے مکمل کہانی:

Bad Luck
برے پھنسے

یہ اِن دنوں کی بات ہے جب بڑے بال رکھنے کے جرم میں ابّو نے ہمیں نائی کے پاس لے جاکر گنجا کر دیا تھا۔ کہاں تو ہم ہر وقت آئینے میں اپنے بال سنوارا کرتے تھے اور اب یہ وقت آگیا تھا کہ ہمارے شریر دوست ہماری گنجی ٹِنڈ پر موقع ملتے ہی چپتیں رسید کر دیتے تھے۔ اس سے پہلے کہ ہماری کھوپڑی سے ڈھائی من تیل نکلتا، ہم نے ایک ٹوپی خریدنے کا فیصلہ کیا، چنانچہ پیسے جیب میں ڈالے اور گنجے سر پر ایک رومال باندھ کر دوستوں کی نظروں سے بچتے بچاتے بازار جا پہنچے۔
 بازار میں ایک دکان پر ہماری نظر ٹھہر گئی۔ وہاں بڑی بھیڑ لگی ہوئی تھی۔ ہمارے ذہن میں دو طرح کے خیالات آئے۔ اوّل یہ کہ اس دکان میں چیزیں مفت اور پہلے آیئے پہلے پایئے کی بنیاد پر مل رہی ہیں یا اس دکان میں ابھی ابھی چوری ہوئی ہے، دکان کا مالک تھانے گیا ہوا ہے اور آس پاس کے لوگ بقیہ مال پر ہاتھ صاف کر رہے ہیں، لیکن قریب جاکر معاملہ مختلف پایا۔ دکان میں چیزیں سستی قیمت پر دستیاب تھیں۔ اندھے کو کیا چاہے دو آنکھیں ہم فوراً اس دکان میں داخل ہوگئے۔ دس طرح کی ٹوپیاں منگوائیں، ہر ایک کو الٹ پلٹ کر دیکھا کسی کو پہنا، کسی کو پھینکا اور بالآخر اپنی پسند کی ٹوپی خریدنے میں کامیاب ہوگئے۔ دکاندار نے منہ مانگی قیمت وصول کی۔ اس نے ہم سے سو کا نوٹ لیا اور دراز میں منہ ڈال دیا۔ کئی منٹ تک اس نے کوئی حرکت نہ کی تو ہمیں خوف آنے لگا یاالٰہی یہ کیا ماجرا ہے، کیا ہمارا نوٹ جعلی ہے؟
 ابھی ہم یہی سوچ رہے تھے کہ دکاندار نے سر باہر نکالا اور اعلانیہ انداز میں کہا ’’صاحب کھلے نہیں ہیں۔ مَیں ایسا کرتا ہوں کہ اسکے بدلے آپ کو کچھ اور دے دیتا ہوں۔‘‘ ہم نے اقرار میں سر ہلا دیا، کیونکہ بہت سا وقت گزر چکا تھا اور ہمیں سیکڑوں کام سر انجام دینا تھے۔ ہم نے اس کا دیا ہوا پیکٹ اٹھایا اور گھر کی طرف روانہ ہوئے، گھر پہنچ کر پیکٹ الماری میں رکھا اور سو گئے۔ سونا ہمارا پہلا اہم کام تھا۔ وجہ یہ تھی کہ رات ہم دیر میں سوئے تھے۔
 ایک ہفتے کے بعد ہمیں اپنی شاہانہ خریداری کا خیال آیا تو الماری کھولی اور پیکٹ نکال کر دیکھا۔ ہماری حیرت کی انتہا نہ رہی۔ پیکٹ میں دو ٹوپیاں تھیں۔ ایک وہ جو ہم نے سکّہ رائج الوقت دے کر خریدی تھیں۔ جبکہ دوسری کو ہمارے پلّے باندھا گیا تھا۔ دوسری ٹوپی، ٹوپی نہیں بلکہ ’’پھندنے‘‘ والی ٹوپی تھی۔ ہم اپنی قسمت کو روئے کہ ہائے یہ کیا ہوا؟ بازار ہم گئے تھے، اک پریشانی مول لائے۔ ہم سوچنے لگے کہ اب کیا کیا جائے؟ اپنی داستان غم کس کو سنائیں۔ جسے سنائیں گے وہ مذاق اڑائے گا، سارے شہر میں پھیلائے گا۔ چنانچہ ہونٹ سی لئے۔
 رات کو ہم نے پھندے والی ٹوپی سرہانے رکھی اور ساری رات کروٹ بدل بدل کر اسے دیکھتے رہے کہ شاید اس میں کوئی خوبی نظر آجائے، مگر اس میں کوئی خوبی ہوتی تو نظر بھی آتی۔ نہ جانے ہم کب سوگئے۔
 اگلے دن آنکھ کھلی تو سب سے پہلے نظر اس ٹوپی پر پڑی۔ ’’ہائے!‘‘ ہمیں رونا آگیا۔ یکایک ہمارے دماغ میں اس سے پیچھا چھڑانے کی ایک ترکیب آئی کہ کیوں نہ ہم اس وبال جان کو تحفتاً کسی کے سر پر دے ماریں۔ بس جناب پھر کیا تھا۔ ہم نے اپنی ذاتی ڈائری کھولی اور سب دوستوں کی سالگرہ کے دن دیکھنا شروع کر دیئے لیکن تمام کی سالگرہ گزر چکی تھیں، بلکہ ان میں سے ایک دوست بھی عین سالگرہ والے دن گزر چکا تھا۔ اب ہم بھلا کیسے دیتے یہ پھندنے والی ٹوپی۔
 اب اس ٹوپی سے پیچھا چھڑانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ اسے پھاڑ کر پھینک دیا جائے مگر ہمارا دل تشدد اور تخریب کاری کو پسند نہیں کرتا اور ویسے بھی ہم بہت رحمدل واقع ہوئے ہیں اسی لئے بھوکوں کو کپڑے اور ننگوں کو کھانا کھلاتے ہیں، پھر سوچا کہ دریا برد کر دیں نہ رہے گی ٹوپی نہ اچھلے گا پھندنا! مگر ایسا کرنے پر بھی دل آمادہ نہ ہوا۔ تب ہم نے طارق کے گھر جانے کا ارادہ کیا۔ ایک وہی تھا جس کی تاریخ پیدائش ہماری ڈائری میں درج نہ تھی۔ یہ عین ممکن تھا کہ اس کی سالگرہ بہت قریب ہو۔ یہ سوچ کر ہم خوشی خوشی طارق کے گھر روانہ ہوئے۔
 اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد ہم نے اس سے پوچھا ’’خیر سے تم کب پیدا ہوئے تھے؟ اپنی تاریخ ہی بتادو۔‘‘ تاریخ سنی تو ہمارے پاؤں سے زمین نکل گئی، آسمان تو پہلے ہی کھسک چکا تھا۔ یہ تاریخ بھی گزر چکی تھی۔ ہم نے بجھے ہوئے لہجے میں اس سے کہا ’’بھائی، سالگرہ کیوں نہ منائی؟‘‘ جواب ملا ’’دوست ۲؍ بار منائی تھی۔ ایک ہجری کلینڈر کے لحاظ سے دوسری عیسوی کیلنڈر کے لحاظ سے۔ اب اور کتنی مناؤں گا۔‘‘ ہم نے واپسی کا قصد کیا۔ یہ بیل منڈھے چڑھتی نظر نہیں آرہی تھی۔ چنانچہ لوٹ کر بدھو گھر واپس آئے۔
 پھندنے والی ٹوپی کو دیکھتے تو جان حلق میں پھنستی ہوئی محسوس ہوتی۔ خیر ہم نے پھندنے والی ٹوپی اٹھائی اور سوچا کہ بازار میں کسی دکان میں چھوڑ آئیں گے۔ یہ کوئی جان دار شے تو ہے نہیں کہ تعاقب کرتے کرتے ہمارے پیچھے واپس آجائے گی۔ ایک دن ہم بازار گئے اور ایک دکان میں داخل ہوئے، بہانے سے پیکٹ دکان میں چھوڑا اور باہر نکل گیا۔ جیسے ہی باہر نکلے، ایماندار دکاندار کی آواز سنائی دی، جناب! آپ اپنا سامان بھول کر جا رہے ہیں۔‘‘ ہم نے دانت پیستے ہوئے بادل ناخواستہ اس پیکٹ کو اٹھایا اور دوسری دکان میں داخل ہوئے مگر وہ دکاندار بھی بڑا ایماندار نکلا۔ ہم نے تنگ آخر پیکٹ کو بازار میں گرایا اور سرپٹ بھاگے پیچھے مڑ کر دیکھا تو ایک شخص ہمارے پیچھے دوڑا ہوا چلا آرہا تھا۔ وہ ہمارے قریب آیا اور کہنے لگا ’’یہ آپ کا پیکٹ بازار میں گر گیا تھا۔‘‘ ہمارا جی چاہا کہ اس کا منہ نوچ لیں مگر افسوس کے ایسا ممکن نہ تھا۔ اس نے تو اپنے تئیں ہمارے ساتھ نیکی تھی۔ ہم گلی سے آئے تو ایک گول مٹول سرخ گالوں والا پیارا سا بچہ نظر آیا۔ ہم نے چٹاپٹ اس کے گال پر پیار کیا اور پھندنے والی ٹوپی اس کے سر پر جما کر جلدی سے گھر میں داخل ہوگئے۔ ٹوپی سے پیچھا چھوٹنے پر ہم خوش تھے کہ ابّا حضور نے آواز دی ’’ٹھہرو تمہارے گنجے سر کیلئے ایک تحفہ ہے۔ ابھی ابھی ہمارا ایک دوست دے گیا ہے۔‘‘ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ایک تھیلا ہمارے ہاتھ میں پکڑا دیا۔ ہم نے ڈرتے ڈرتے تھیلا کھول کر دیکھا تو ٹھٹھک کر رہ گئے۔ تھیلے میں ایک نہیں دو دو پھندنے والی ٹوپیاں تھیں۔

متعلقہ خبریں

This website uses cookie or similar technologies, to enhance your browsing experience and provide personalised recommendations. By continuing to use our website, you agree to our Privacy Policy and Cookie Policy. OK